06 مارچ ، 2021
لگتا ہے کہ مکافاتِ عمل کا قانون روبہ عمل ہونے لگا ہے اور جیسا کروگے، ویسا بھروگے کے مصداق عمران خان کے ساتھ اسی عمل کا آغاز ہوگیا ہے جو عمل ان کے ذریعے دوسروں کے ساتھ ہوتا رہا۔
لوگ سمجھتے ہوں گے کہ شاید سید یوسف رضاگیلانی کو سینیٹر بنانے کا پلان کہیں زرداری، مولانا اور نواز شریف جیسے بڑے دماغوں نے تیار کیا ہوگا لیکن میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ ﷲ کی طرف سے تھا جس کا وسیلہ اور ذریعہ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر بنے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر گزشتہ ماہ دو بڑے سانحات سے دوچار ہوئے۔ پہلے ان کے چچا انتقال کرگئے اور صرف ایک ہفتے کے وقفے سے ان کے والد حاجی نواز کھوکھر کورونا کی وبا کی وجہ سے رُحلت فرماگئے۔ ایک روز میں مصطفیٰ بھائی کے پاس بیٹھا تھا، سیاست پر بات ہونے لگی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ صافی بھائی کیا خیال ہے اگر گیلانی صاحب کو اسلام آباد سے سینیٹ کا الیکشن لڑوایا جائے تو کیسا رہے گا؟ میں نے جواباً عرض کیا کہ گیلانی صاحب جیت نہیں سکتے۔ اگر انہیں سینیٹر بنانا ہی ہے تو پھر سندھ سے بنا لیں۔
جواب میں مصطفیٰ کھوکھر نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ اسلام آباد سے لڑوانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اگر وہ جیت گئے تو اسے وزیراعظم پر عدم اعتماد سے تعبیر کیا جائے گا اور اگر ہار گئے تو ان کا یا ہمارا کیا جاتا ہے۔
میں نےعرض کیا کہ آخر وہ جیتیں گے کیسے ؟ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مجھے تعزیت کیلئے آنے والے پی ٹی آئی کے دوستوں کے جذبات سے اندازہ ہوگیا ہے کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز تو کیا وزرا بھی اپنے لیڈر کے رویے سے سخت نالاں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان کی بڑی تعداد گیلانی صاحب کو ووٹ دے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گیلانی صاحب کے خاندانی اور ذاتی تعلقات کا دائرہ بھی وسیع ہے جبکہ پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور وزرا میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو گیلانی صاحب کے زیربار ہیں۔ یہ دلائل سن کر میں نے بھی ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ پھر انہوں نے گیلانی صاحب کے صاحبزادے، جو ان کے قریبی دوست ہیں، سے بات کی اور انہیں قائل کیا لیکن گیلانی صاحب تیار نہیں ہو رہے تھے۔
اس کے بعد یہ تجویز انہوں نے بلاول بھٹو کے سامنے رکھی جو انہیں پسند آئی اور پھر انہوں نے گیلانی صاحب کو قائل کرایا۔ اس کے بعد بلاول اور زرداری صاحب نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز شریف کو اعتماد میں لیا۔ انہوں نے بھی بغیر کسی توقف کے گیلانی صاحب کے امیدوار بننے کی حمایت کی کیونکہ سب جانتے تھے کہ یہ سیٹ نہ تو نون لیگ جیت سکتی ہے اور نہ پی ڈی ایم کی کوئی اور جماعت۔
گیلانی صاحب کے امیدوار بنتے ہی زرداری صاحب، بلاول بھٹو ، مصطفیٰ کھوکھر اور فیصل کریم کنڈی وغیرہ گیلانی صاحب کے حق میں سرگرم ہوگئے۔ عمران خان اور ان کے مشیروں کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی گزشتہ الیکشن کی طرح سندھ اور پختونخوا میں ان کے لوگوں کو توڑے گی، اس لئے دونوں صوبوں میں وہ کھرب پتی امیدواروں کو میدان میں لے آئے لیکن زرداری صاحب نے اب کے بار ان صوبوں کی بجائے ساری توجہ مرکز پر مرکوز رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ پختونخوا میں پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم کے متعدد ارکان خریدے۔
مرکز میں گیلانی صاحب کے امیدوار بنتے ہی عمران خان کے بھی کان کھڑے ہوگئے لیکن ممبران پارلیمنٹ پر توجہ دینے کی بجائے انہوں نے سپریم کورٹ پر توجہ مرکوز کئے رکھی۔ اب کی بار تبدیلی یہ آئی تھی کہ مقتدر حلقوں نے پیپلز پارٹی کو بھی یقین دلایا تھا اور عمران خان کو بھی اشارہ دیا تھا کہ وہ غیرجانبدار رہیں گے۔
الیکشن کمیشن کے رویے سے بھی لگ رہا تھا کہ وہ اب کی بار واقعی غیرجانبدار ہے لیکن عمران خان کو یقین تھا کہ ماضی کی طرح عدالت ان کی خواہش کے احترام میں یہ غیرآئینی کام بھی کر جائے گی تاہم جب سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے خلاف آیا تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ پوری قوت کے ساتھ ممبران اسمبلی اور اتحادیوں کو منانے کیلئے متحرک ہوگئے۔ انہوں نے انٹیلی جنس بیورو کو متحرک کیا تو یہ جان کر ان کے اوسان خطاہوگئے کہ تیس سے پینتیس اراکین قومی اسمبلی دوسری طرف جانے والے ہیں۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر وہ مہربانوں سے مدد مانگنے لگے اور آخری دو تین روز تو وہ خود بھی متحرک ہوئے۔ یہاں معاملے کے کچھ دلچسپ پہلوؤں سے قارئین کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مثلاً پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے بعض ایم این ایز سے جب گیلانی صاحب کیلئے ووٹ مانگا گیا تو اس کے جواب میں پیسے یا کسی اور چیز کے مطالبے کی بجائے انہوں نے اگلے الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ کی یقین دہانی مانگی چنانچہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے نون لیگ کی قیادت سے رابطہ کرکے ان کی یہ شرطیں پوری کرادیں۔
میری معلومات کے مطابق یہ بات درست نہیں کہ خود عمران خان یا زرتاج گل کا ووٹ بھی ضائع ہوا ہے البتہ شہریار آفریدی کا معاملہ بڑا دلچسپ اور پراسرار ہے۔ وہ یوں کہ زرتاج گل وغیرہ کی طرح وہ پہلی مرتبہ سینیٹ کا ووٹ نہیں ڈال رہے تھے بلکہ وہ پہلے بھی دو مرتبہ سینیٹ کا ووٹ کاسٹ کر چکے ہیں۔ یوں یقین کرنا مشکل ہے کہ لاعلمی کی وجہ سے انہوں نے حفیظ شیخ کے نام کے سامنے دستخط کیے۔ اسی طرح ان کا یہ عذر بھی سراسر جھوٹ ہے کہ وہ بیمار تھے۔؎
صرف چند روز قبل 27 فروری کو ابھی نندن کے حوالے سے ان کی چائے کےکپ والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ الحمدللہ وہ پوری طرح صحت مند ہیں۔ ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انہوں نے دستخط صرف حفیظ شیخ کے نام کے سامنے کیا لیکن اگر وہ سہواً یہ کام کر رہے تھے تو پھر انہیں خاتون امیدوار کے نام کے سامنے بھی دستخط کرنے چاہئے تھے لیکن انہوں نے صحیح نشان لگایا۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ان کو دوسرا بیلٹ پیپر جاری نہیں کیا کیونکہ الیکشن کمیشن کے موقع پر موجود حکام کو بھی یقین تھا کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ سہواً نہیں۔