14 مارچ ، 2021
سید یوسف رضا گیلانی خفیہ ووٹ سے کامران ہو کر، اب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں خفیہ ہاتھ کی کرشمہ سازی پر یقیناً ہاتھ ملتے رہ گئے ہوں گے۔ اسلام آباد کی سیٹ پر مشیرِ خزانہ کو پی ڈی ایم کی عددی حیثیت سے 19 ووٹ زیادہ لے کر شکست سے دوچار کرنے کی ’’کامرانی‘‘ پہ ان کی شادمانی ابھی جاری تھی کہ عددی اکثریت (51) کے باوجود، عددی اقلیت (47) کے حامل صادق سنجرانی سے چھ ووٹ سے شکست کھاگئے۔
اگر خفیہ ہاتھ کی ’’غیر جانبداری‘‘ سے وہ مستفید ہوئے تھے تو اب اس کی کرشمہ سازی پہ حیران و پریشان کیوں ہیں؟ ؟ شرارتی طلال چوہدری نے بلاول بھٹو کو ’’نیوٹریلیٹی‘‘ سے مزہ لینے کی خوب پھبتی کسی کہ انہیں طلال کو ’’تنظیم سازی‘‘ کی تلخ یاد یاد دلانا پڑگئی۔ یہ حسن اتفاق ہے یا پھر ہاتھ کی صفائی کہ گیلانی صاحب کو پڑنے والے 49 ووٹوں میں سے7 ووٹ ان کے نام پر نقش کر دئیے گئے کہ شاید اس طرح رٔد ہو جائیں۔
کہیں یہ سات سینیٹرز انہی 14 سینیٹرز میں سے تو نہیں جو سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے خفیہ ووٹ کے مرحلے میں بدک گئے تھے؟ دلچسپ بات ہے کہ سنجرانی کا کوئی ووٹ ضائع ہوا، نہ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں کوئی ووٹ رد ہوا۔ بلکہ جو سات ووٹ گیلانی صاحب کے ضائع کیے گئے تھے، وہ ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے رائونڈ میں حکومتی امیدوار ارب پتی (جو1937 کروڑ روپے کے مبینہ نادہندہ ہیں) مرزا آفریدی کو پڑے جو سنجرانی کے ووٹوں سے چھ زیادہ ہیں، باقی چار انہیں بکائو مال میں ملے۔
یوں مرزا صاحب نے فقیر منش عبدالغفور حیدری کو 10 ووٹ سے شکست دے دی۔ لگتا ہے کہ وہ واحد ووٹ جو چیئرمین کے انتخاب میں دونوں امیدواروں کو پڑا تھا وہ مرزا صاحب کے کھاتے میں چلا گیا۔ اب ایک نئی عدالتی جنگ ہونے جارہی ہے کہ گیلانی صاحب کے 7 ووٹ حلال ہوں گے یا حرام؟ ہر دو اطراف کے وکلا میدان میں اتریں گے کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کا اختیار ہے کہ نہیں اور اگر ہے تو پھر یوسف رضا گیلانی کے خانے میں ان کے نام پر لگے ٹھپے کیسے ضائع کردئیے گئے؟ سینیٹ رولز کے مطابق اور جیسا کہ ایک ویڈیو سے بھی ظاہر ہے کہ یہ سات ووٹ واضح طور پر گیلانی صاحب کو ہی دئیے گئے۔
گوکہ ووٹوں کی گنتی میں کھلی دھاندلی کے الزامات اور اس سے پہلے خفیہ کیمروں کی پولنگ بوتھ سے برآمدگی پہ حکومت کی خوب سبکی ہوئی، لیکن اگر عدلیہ نے گیلانی صاحب کے حق میں فیصلہ دے دیا تو پھر حکومتی پشیمانی دو چند ہوجائے گی۔
سینیٹ کے انتخابات سے اگر کوئی زخم خوردہ ہوا ہے تو وہ وفاقی اکائیوں کا نمائندہ بالواسطہ منتخب ادارہ۔ رہی ووٹ کی پرچی تو اس کے مقدر میں مملکت خداداد میں رسوائی کے سوا لکھا ہی کیا ہے۔ ووٹ کی رسوائیوں سے مستفید ہونے والی عمران خان سمیت سیاسی نسلوں کو ووٹ کی عزت کا خیال کبھی آتا بھی ہے یا اگر آئے گا بھی تو تب جب ووٹ کی رسوائی سے وہ فیضیاب نہ ہوں۔
جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے کے مصداق اگر گیلانی صاحب کی سینیٹر بننے کی کامرانی پہ اپوزیشن نے ایک ناجائز فتح کے جھنڈے لہرائے تھے تو اب تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ناجائز فتح پہ کوئی شرم دلائے بھی تو کس کام کی۔
ہمارے دوست عبدالغفور حیدری نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا بڑا صائب مشورہ دیا ہے۔ ان کا یہ مشورہ پی ٹی آئی والوں کے لیے بھی سود مند ہے لیکن فقیروں کی کون سنتا ہے جب سیاست ارب پتیوں کے ہاتھوں سٹہ بازی بن جائے، بھلے چوروں کو این آر او نہ دینے والوں کو ایسے جواریوں کو سینے سے لگانے میں کوئی عار نہ ہو۔
اپنی ہی صفوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور بددیانتی سبھی جماعتوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ اس کے ازالے کیلئے پارٹیوں میں اندرونی جمہوریت کے ساتھ ساتھ اندرونی صفائی ستھرائی کا عمل جمہوری سیاست کا وطیرہ بننا چاہیے جو کہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔
سینیٹ کے انتخابات کے لیے کھلے اور خفیہ طریقہ ووٹ کی تکرار میں سینیٹ کے معتبر ایوان کی نہ صرف مٹی پلید کردی گئی ہے بلکہ اسے واقعی وفاق کی حقیقی علامت بنانے کے لیے ضروری بحث پس پردہ چلی گئی ہے۔
ووٹ کے آزادانہ اظہار کے لیے خفیہ رائے دہی ایک مسلمہ اصول ہے، جو دیگر جمہوری روایات کی طرح سینیٹ کے انتخابات میں کھوٹا سکہ ثابت ہوا ہے۔ لیکن کھلے ووٹ کا مطلب پارٹی سربراہوں کی من مانی پر ضمیر کی آزادی کو قربان کرنا ہے۔ پاکستان کے جمہوری وفاق کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سینیٹ کا انتخاب براہ راست ہو۔
انتخابی آسانی کے لیے سینیٹ کے اراکین کی تعداد کو دو گنا کیا جا سکتا ہے۔ براہ راست منتخب کردہ سینیٹ کو امریکی سینیٹ کی طرح مقتدر بنایا جاسکتا ہے جسے تمام وفاقی اور بین الصوبائی معاملات میں قومی اسمبلی کے مساوی حیثیت حاصل ہو اور جو اٹھارویں ترمیم کی منشا کو بھی پورا کرسکے۔
سینیٹ کے ہنگامہ پرور انتخابات کے نتیجہ میں دونوں اطراف کی سیاست کو دھچکا لگا ہے۔ اگر حکومت ہل گئی ہے تو اپوزیشن بھی اپنے اصل ہدف سے دور ہٹ گئی ہے۔ پی ڈی ایم اپنے 26 نکاتی ایجنڈے کو بھول بھال کر ’’اندر سے تبدیلی‘‘ کی راہ پہ بھٹک گئی اور اس امید پر کہ شاید خفیہ ہاتھ کی برکت اب عمران حکومت کو ویسے میسر نہیں رہی جیسے کہ پہلے تھی۔ پہلے سینیٹ کا انتخاب تمام تر توجہ کا مرکز رہا تو اب عدالتی لڑائی میڈیا پر چھائی رہے گی۔ اگر اپوزیشن مقدمہ جیت گئی تو پھر عدم اعتماد کا ووٹ لائے جانے کی تگ و دو چل پڑے گی۔
یوں پی ڈی ایم عوامی مزاحمت کی راہ سے دور ہوتی چلی جائے گی۔ اگر اپوزیشن نے یہی کرنا ہے تو پھر اسے قبل از وقت انتخابات کے ہدف کو ترک کرنا پڑے گا اور اچھے بچوں کی طرح اپنی باری کا انتظار کرنا ہوگا۔ یا پھر اگر مولانا فضل الرحمٰن کی حریت پسندی کی راہ لینی ہے تو پھر کشتیاں جلانا پڑیں گی لیکن کشتیاں جلا کر آتش نمرود میں کودنے والے جمہوری تحریک کے مسلسل اسقاط کے ہاتھوں کبھی کے تھک ہار چکے ہیں۔
اب مولانا کا اصرار ہے کہ 26 کو لانگ مارچ شروع ہو کر 30 مارچ کو جڑواں شہر پہنچے گا اور دھرنا ہوگا لیکن ان کے خیال میں استعفوں کے بغیر اس ہنگامے سے کچھ برآمد نہ ہوگا۔ اب تو پیپلزپارٹی بھی دھرنے میں شامل ہونے پہ تیار ہے اور وہ بھٹو صاحب کی 4 اپریل کو برسی بھی راولپنڈی میں منانے کا عندیہ دے چکی ہے لیکن استعفوں پہ ابھی دونوں بڑی پارٹیاں تیار نہیں ہوں گی کہ استعفوں کا مطلب اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہوگا۔ کہیں یہ نہ ہو کہ ہمارے مولانا اکیلے رہ جائیں۔ یا پھر پی ڈی ایم کو بھی بھگتنا پڑے گا کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
پی ڈی ایم ایسا انقلابی محاذ نہیں ہے جو ریاست کی کایہ پلٹ سکے۔بہتر ہے کہ اپوزیشن دس برس کے لیے ایک دور رس محاذ برائے جمہوری، آئینی اور ادارتی تبدیلی میں بدل جائے اور مناسب وقت کا انتظار کرے کہ دنیا کہہ اُٹھے:
’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا!‘‘
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔