Time 17 مارچ ، 2021
بلاگ

اقتدار کا کھیل ۔۔۔!

فائل فوٹو

کہتے ہیں کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں مگر کیا کیجیے کہ اقتدار کی خواہش اور محبت جب ذہن و دل میں بس جائے تو پھر کوئی حد ، کسی حد کا پاس نہیں رکھتی۔ موجودہ حکومت کے خلاف گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم وجود میں آیا تو عوام کو امید ہوچلی تھی کہ اب منتخب ایوانوں اور چوک چوراہوں میں ان کے بنیادی حقوق کی لڑائی لڑی جائےگی ،حکومت کو عوام پر مہنگائی کےمظالم ڈھانے سے روکا جائےگا، بیروزگاری اور معاشی حالات کو بہتر بنانے پر مجبور کیا جائےگا مگر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

اپوزیشن عوام کے حقوق کی لڑائی لڑنے کی بجائے حکومت کو گرانے پر لگ گئی، اسٹبلشمنٹ پرشکووں اور الزامات کی گولہ باری سمیت مظاہرے،احتجاجی جلسے اور اتحادیوں کو توڑنے کےلئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے گئے۔ 

مسلسل ناکامیوں کے درمیان اپوزیشن کو یوسف رضا گیلانی کی سینٹ کی نشست پر کامیابی کی صورت خوشی تو ملی تاہم عمران خان نے ازخود قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیکر اپوزیشن کے آئندہ کی حکمت عملی کو تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے،180 کے مقابلے میں 160 ووٹ رکھنے کے باوجود سینٹ کی نشست پرفتح حکومت کےلئے تو ناقابل یقین تھی خود اپوزیشن اتحاد کےلئے بھی حیرت سے کم نہ تھی گو سینیٹ انتخابات سے دو روز پہلے زرداری صاحب کی جانب سے تمام اپوزیشن جماعتوں کو گیلانی کی کامیابی کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی مگر کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا خاص طور پر محض ایک رات پہلے علی گیلانی اور ناصر شاہ کی دو ویڈیوز سے معاملہ مزید مشکوک ہوگیا تھا،الیکشن کمیشن نے بھی ازخود فوری نوٹس لینے کی بجائے بروقت الیکشن کرادیا پھرہوا وہی جو “سب سے بھاری”نے طے کیاتھا عمران خان اور انکی حکومت ایسی سکتے میں آئی کہ 24 گھنٹے تو ہوش میں واپس آنے کو لگے۔

یہ سب کیسے ہوا ابھی تک کوئی نہیں جانتا ہاں آصف زرداری ضرور جانتے ہیں پیپلزپارٹی کے میلہ لوٹنے پر خود ن لیگی قیادت بدستور انگشت بدنداں اور مولانا غوطہ حیرت میں ڈوبے ہیں ۔ بعض سینئر رہنماؤں کےمطابق سینٹ میں اپ سیٹ کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے الگ کی پریشانی ابھی تک درد سر ہے۔

غیر جانبدار ہوجانےکے اعلان کےباوجود اسٹبلشمنٹ موجودہ جمہوری نظام کو عدم استحکام کا شکار نہ کرنے پر مصر ہے۔ اسٹبلشمنٹ کی “غیرجانبدار” رہنے کی اپوزیشن کویقین دہانیاں اپنی جگہ مگر حکومت کو گھر بھیجنا اس پیکج میں شامل نہیں،کہانی بدل رہی ہے اور اس میں اہم کردار پیپلزپارٹی کا ہے، زرداری صاحب نے “بیمار”میاں صاحب کی غیر موجودگی میں بھرپور ایکٹو ہوکر پارٹی میں دوبارہ جان ڈال دی ہے،اپنی روایتی سیاسی حکمت عملی سےاسٹبلشمنٹ کی نظروں میں قابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بڑی” ڈیل “ کاحصہ بن چکے ہیں جو آئندہ ان کو فائدہ دےگی۔

اپوزیشن کئی ماہ کی حکومت گرانے کی کوششوں میں ناکامی کےباوجود ایک نئے جذبے سے لانگ مارچ کی طرف ہوچکی ہے، ن لیگ اور مولانا کپتان کی فوری چھٹی جبکہ زرداری آئندہ اقتدار کے حوالے سے نئی ڈیل میں ہےتاہم لانگ مارچ کاجامع پلان بن چکاہے اور کراچی سے خیبر تک کےتمام شہروں سےلوگ اکٹھے کرکے 30 مارچ تک اسلام آباد لانے کا فیصلہ ہوچکاہے دھرنا بھی ہوگا مگر سوال اٹھ رہاہے کہ 126 دن کا دھرنا حکومت نہیں گراسکا تو رمضان سے پہلے چند روز کےدھرنے سے حکومت گھر کیسے جائےگی ؟ 

حکومت بھی طاقتوروں کو اعتماد میں لیکر اپوزیشن قیادت کیخلاف پرانے اور نئےمقدمات و گرفتاریوں میں تیزی کا فیصلہ کرچکی ہے، میڈیا پر بھی گھیرا مزید تنگ ہوگا!عوام کی خدمت کے نام پر اقتدار کی خواہش اپنی جگہ مگر اصل مقصد اور لڑائی وزارت عظمی کے منصب تک پہنچنا ہے۔ 

دلچسپ بات یہ ہےکہ حکمران اور اپوزیشن کے اتحاد میں شامل جماعتوں کےلئے آئندہ الیکشن متحد ہوکر لڑنا اور اپنا اپنا حصہ لینا ایک بڑا چیلنج ہوگا صرف ن لیگ میں وزارت عظمی کے چار امیدوار ہیں ، میاں صاحب خود نہ واپس آسکےتو وہ صرف صاحبزادی کو ہی اعلی منصب پر دیکھنا چاہیں گے جبکہ چھوٹے میاں کی سوچ قطعی مختلف ہے۔

پیپلزپارٹی میں تین اہم لوگ منصب کےسخت خواہش مند ہیں جبکہ پی ڈی ایم کے قائد کے دل میں بھی خود کوسب سے زیادہ اہل سمجھنے کےباعث یہ خواہش بدرجہ اُتم موجود ہے۔ طاقتور حلقوں سے متعلق تبصرہ کیا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہوچکے ہیں اور وہ اپنی سیاسی “بصیرت و حکمت “ سے اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنوانے کی ڈیل میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔تمام مقدمات میں ضمانت کے بعد فوری لانگ مارچ کی بجائے عدم اعتماد کا آئیڈیا دینا بھی اسی کا حصہ تھا جبکہ اب بھی لانگ مارچ کو جلد سے جلد انجام پذیر کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہوگی ۔

سیاسی نقاد کہتے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گذرےگااپوزیشن اتحاد کےلئے ایک انار اور سو بیمار والا معاملہ مزید سنجیدہ مسئلہ اور ایک بڑا چیلنج بنتا جائےگا ۔کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے کسی بھی بہانے اقتدار سے فراغت پر تحریک انصاف میں ابھی سے کئی امیدوار ہیں تاہم آئندہ انتخابات یعنی 2023 کے انتخابات سےپہلے پارٹی کے اندر بھی بہت ہی بری صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

ایک اہم حکومتی وزیر کےمطابق موجودہ بدترین کارکردگی اور غیر منظم سیاسی حکمت عملی کے باعث حکمران جماعت کےزیادہ تر ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور وزراء اپنے مستقبل کےحوالے سے خدشات کا شکار ہیں انہیں خدشہ ہےکہ پارٹی اور حکومتی اتحاد کا بھی وہی حشر نہ ہو جو قاف لیگ کا ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی سرپرستی کے خاتمے اور اقتدار سے رخصتی کے دوران ہوا تھا۔

خود وزیراعظم اور حکومتی زعماء مہنگائی ، بے روزگاری اور بڑھتی غربت سے سخت پریشان اور اپنا بڑا حریف سمجھتےہیں مگر ان بحرانوں سے جلد بدیر چھٹکارے کا کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں بنائی جاپا رہی۔نتیجتاً عوام اب بڑی حد تک گھبرا چکے ہیں اس کی ایک جھلک ملک بھر کےدرجن بھر حلقوں میں ضمنی انتخابات میں شکست سے بھی عیاں ہوتی ہےحالانکہ بلعموم ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدوار ہی کامیاب ہونے کی تاریخ رہی ہے ۔

حکومت اور اپوزیشن کی مسلسل ناکامیوں کے درمیان ایک بات بہت حد تک واضح ہوچکی ہےکہ اب سب نے2023 کے انتخابات کی تیاری کے Mode میں جانے کا اصولی فیصلہ کرچکے ہیں،لانگ مارچ ہوگا بھی تو وہ حکومت گرانے کےلئے کم اور حکومت کی بدترین پرفارمنس پر تنقید اور مزید exposeکرنے کےلئےہوگا۔

وزیراعظم عمران خان کی پریشانیاں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھُ رہی ہیں، اقتدار کا آدھا وقت مسائل سمجھنے ،الجھنے اور بچنے میں گذر گیا مگر آئندہ کا آدھا سفر مزید پرخطر ہوگا ،وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو یقین ہوچکاہے کہ دیگر کئی بڑے مسائل کے علاوہ سب سے بڑا مہنگائی کا جن بوتل میں واپس بند کرنا تقریباً ناممکن ہوچکاہے ہریشانی ہے آئندہ اقتدار کا کیا بنے گا ؟

ہاں 2018کی تاریخ دہرانا ایک دوسرا چمتکار ہوگا؟ یہ بھی سچ ہےکہ کوڈ 19 اور دیگر محاذوں پرغلط فیصلوں سے ہونے والی معاشی تباہ کاریوں کا بوجھ ابھی تک فوری اٹھانے کو کوئی تیار نظر نہیں آتا تبھی فوری انتخابات کےمطالبہ پر زور بھی قدرے کم ہوچکاہے۔تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین بلخصوص وزیراعظم بننے کے خواہشمندوں کےلئےایک بات بہت اہم ہےکہ اقتدار کی جنگ اور محض سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر عوام کے حالات بہتر بنانے کی باقاعدہ اور منظم تیاری کا فوری آغاز نہ کیا گیا توعوام کا جمہوریت پر سے اعتماد ضرور اٹھ جائےگا۔!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔