20 مارچ ، 2021
یہ ان دنوں کی بات ہے جب آصف زرداری صدر کی حیثیت سے واقعی سب پر بھاری تھے۔تب ملک کے وسیع تر مفاد میں پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے کے عمل کا آغاز ہوا تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ لاہور اور پنڈی کے جلسوں کیلئے نہ صرف ملک کے وسیع تر مفاد میں کروڑوں روپے فراہم کئے گئے بلکہ زرداری صاحب نے بھی بالواسطہ اپنے دوستوں کے ذریعے پیسے سمیت ہر طرح کی مدد فراہم کی۔
ان کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی پنجاب میں نون لیگ کا ووٹ توڑے گی۔ ایک دن ایک دوست کے گھر ان کے دست راست ڈاکٹر عاصم سے ملاقات ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کرکے زرداری صاحب خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی تو نہیں مار رہے؟
ڈاکٹر عاصم نے تفاخرانہ انداز میں جواب دیا کہ سلیم ! جہاں تم جیسے لوگوں کی سوچ ختم ہوتی ہے، وہاں سے زرداری صاحب کی شروع ہوتی ہے اور آپ دیکھیں کہ زرداری صاحب کیا گیم کھیلتے ہیں۔ میں خاموش ہوگیا لیکن پھر چشمِ فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ پی ٹی آئی نے پنجاب سے نون لیگ کا نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کا جنازہ نکال دیا۔ پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہوگئی۔
مسلم لیگ(ن) کی حکومت بنی تو شروع میں نواز شریف اور زرداری نے ایک دوسرے سے بنا کے رکھی لیکن جنرل راحیل شریف نے سندھ میں ان کے لئے مشکلات کھڑی کیں اور ان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوا تو تنگ آکر انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے ڈالی۔ اس بیان کے بعد نواز شریف نے انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ چنانچہ انہیں ملک سے باہر جاناپڑا اور تب تک واپس نہ آئے جب تک مقتدر حلقوں کی قیادت تبدیل نہ ہوئی ۔ انہیں معافی اس شرط پر ملی کہ وہ نواز شریف کے خلاف وہی کردار ادا کریں جو پی ٹی آئی ادا کر رہی ہے۔
چنانچہ انہوں نے بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت گرانے میں کردار ادا کیا۔ پھر سینیٹ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی گیم کا حصہ بنے لیکن انتخابات سے چند روز قبل انہیں اندازہ ہوگیا کہ اس تابع فرمانی کے باوجود سندھ کو ان سے لے کر جی ڈی اے کو دیا جا رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے پھر منت ترلا شروع کیا اور نئے وعدے ہوئے جس کے جواب میں آخری وقت میں سندھ ان کو دلوایا گیا۔
اسی ڈیل کے تحت انہوں نے انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن وغیرہ کا ساتھ دینے کی بجائے اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی اسمبلیوں میں بیٹھنے پر قائل کیا، اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ صدر کے انتخاب میں بھی اپنے دیرینہ دوست مولانا فضل الرحمٰن کی بجائے عارف علوی کی جیت کی راہ ہموار کی۔ زرداری صاحب سندھ کی حکومت کے مزے لوٹنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ مذکورہ خدمت گزاریوں کی وجہ سے انہیں نہیں چھیڑا جائے گا لیکن المیہ یہ تھا کہ احتساب کے عمل کو زرداری صاحب پر ہاتھ ڈالے بغیر وقعت نہیں مل سکتی تھی۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے وعدے سرپرستوں سے ہوئے تھے ، خود عمران خان سے نہیں اور وہ ان پر غصہ تھے۔
چنانچہ احتساب کا دائرہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی تک بھی وسیع ہوگیا۔ صرف زرداری صاحب نہیں بلکہ ان کی بہن کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ دوسری طرف ان پر دباؤ بڑھا کہ وہ اٹھارویں ترمیم پر لچک دکھا دیں۔ چنانچہ زرداری اور بلاول انقلابی بننے لگے۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے رابطے شروع کئے۔ مولانا ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے ، اس لئے خود اے پی سی بلانے کی بجائے زرداری صاحب کو اے پی سی بلانے کا کہا۔ چنانچہ پیپلزپارٹی کی میزبانی میں اے پی سی ہوئی۔ ابتدائی چند دنوں کے بعد مسلم لیگ(ن) اور مولانا کے سخت لہجے کے برعکس بلاول بھٹو نے نرم لہجہ اپنایا۔ چنانچہ پی ڈی ایم کی صفوں میں سے پیپلز پارٹی کو لاڈلے کے طور پر چن لیا گیا۔ چنانچہ زرداری صاحب نے سینیٹ کے چیئرمین کے ساتھ ساتھ پنجاب اور پھر مرکز میں تبدیلی کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔ پی ڈی ایم نے جنوری میں استعفوں کا وعدہ کیا تھا لیکن وقت آنے پر زرداری صاحب نے باقیوں کو اس بات پر قائل کرلیا کہ سینیٹ کے الیکشن تک اس آپشن کو استعمال نہ کیا جائے۔
گیلانی صاحب کے ہاتھوں حفیظ شیخ کی شکست کے بعد تو زرداری صاحب مونچھوں کو تاؤ دے کر کہنے لگے کہ دیکھا جو کام مولانا اور نواز شریف دو برسوں میں نہ کرسکے ، وہ میں نے ایک دن میں کر دکھایا لیکن پھر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں گیم الٹی ہوگئی۔
سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس اس ارادے کے ساتھ بلایا گیا کہ حسب وعدہ اسمبلیوں سے استعفوں اور اسلام آباد کی طرف مارچ کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے لیکن حیرت انگیز طور پر زرداری صاحب مارچ کیلئے سنجیدہ نظر آئے اور نہ استعفوں پر آمادہ تھے ۔
بہر حال اب ایک بات واضح ہوگئی کہ مزید پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم کے ساتھ چلنا مشکل ہے جبکہ دوسری طرف مارچ ملتوی کرنے سے پی ڈی ایم کو سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن میرے نزدیک زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی جماعت اور بیٹے کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ایک تو ان کے نکلنے کے بعد بھی پی ڈی ایم نہیں ٹوٹے گی بلکہ اب اس کے انتخابی اتحاد بننے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
دوسرا اس کے بعد زرداری صاحب کا پنجاب یا مرکز میں عدم اعتماد لانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ تیسرااس اقدام کے ذریعے پنجاب اور پختونخوا میں پیپلز پارٹی کا رہا سہا ووٹ بینک بھی ختم ہو جائے گا۔ میں تو دسمبر سے پی ڈی ایم کی قیادت کو مشورہ دے رہا تھا کہ اگر جینوئن اپوزیشن کرتی ہے تو پیپلز پارٹی سے جان چھڑا لیں لیکن نواز شریف اور مولانا انہیں مہلت دے رہے تھے۔
اس وقت میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ بلاول کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بھٹو کے جانشین بن کےقومی سطح کے لیڈر بن جائیں اور دوسرا یہ کہ وہ سندھ کے نئے پیرپگارا بن جائیں۔
افسوس کہ زرداری صاحب نے اس اقدام کے ذریعے بلاول کو سندھ کا نیا پیر پگارا بنا دیا اور میرے نزدیک یہ بہت بڑا نقصان ہے جو زرداری صاحب نے اپنی جماعت کو پہنچایا ہے۔