27 مارچ ، 2021
کرپشن کے الزامات تھے، دوست پروری اور اقرباپروری کی آوازیں تھیں لیکن زرداری صاحب کے بارے میں یہ تاثر پہلے کبھی عام نہیں ہوا تھا کہ وہ سیاسی اخلاقیات اور سیاسی رواداری کے فن سے ناآشنا ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی رحلت کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے تو مولانا فضل الرحمٰن سے لے کر اسفندیار ولی خان تک کو ساتھ لے کر چلے اور سب ان کی وسیع القلبی کی تعریف کرتے رہے۔ میڈیا نے ان کے ساتھ بہت زیادتی کی لیکن زرداری صاحب نے انتقام نہیں لیا اور فراخدلی کے ساتھ تنقید برداشت کرتے رہے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم ان کی حکومت کا بڑا کارنامہ تو تھا ہی لیکن ان کے ترجمان ان کو اس بات کا بھی بڑا کریڈٹ دیتے رہے کہ انہوں نے بطور صدر اپنے اختیارات وزیراعظم کے حوالے کئے (حالانکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پارٹی چیئرمین ہونے کے ناطے پھر بھی اختیارات ان کے پاس تھے)۔
سندھ اور مرکز میں خراب حکمرانی اور کرپشن کے الزامات کے باوجود پیپلز پارٹی کی سیاست کی اس لئے بھی تعریف کی جاتی تھی کہ زرداری صاحب جو چالیں چلتے تھے، ان کا محور و مرکز سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو کم کرنا ہوا کرتا تھا لیکن نہ جانے کچھ عرصے سے انہیں کیا ہوگیا ہے کہ سیاسی روایات اور اخلاقیات کے برعکس عمل کرتے نظر آتے ہیں اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا حتمی نتیجہ غیرسیاسی قوتوں کے حق میں نکلتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے پہلے ان دستاویزات پر دستخط کئے جن میں لانگ مارچ اور استعفوں کے آپشن شامل تھے لیکن پھر انہی اسمبلیوں اور سینیٹ کو مضبوط کرنے پر زور دیتی رہی ، جن کو جعلی قرار دے کر ختم کرنے کیلئے پی ڈی ایم بنی، جب کیسز اور سندھ حکومت کے بارے میں اپنے مقاصد حاصل کر لئے تو بلاول بھٹو نے گلگت میں میاں نواز شریف کے بیان کے خلاف انٹرویو دے کر پی ڈی ایم میں انتشار کی بنیاد رکھ دی لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے معاملے کو زیادہ بگڑنے نہ دیا۔
اس کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے تسلسل کے ساتھ ایسے اقدامات کا سلسلہ شروع ہوا کہ جو اتحادی اور سیاسی اخلاقیات کے اصولوں کے منافی تھا۔ پی ڈی ایم اسمبلیوں کو ختم کرنے کےلئے بنی تھی لیکن پیپلز پارٹی نے باقی جماعتوں سے مشاورت کے بغیر ہی الیکشن کمیشن کو ضمنی انتخابات کے لئے درخواست دے دی۔ پی ڈی ایم کی قیادت چاہتی تو اسے وجہ نزاع بنا سکتی تھی لیکن مولانا اور نون لیگ نے اتحاد کی خاطر پیپلز پارٹی کے اس یکطرفہ اقدام کو اون (Own) کیا اور خود بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لیا۔
سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا اصرار بھی پیپلز پارٹی کا تھا، جسے ان کے ساتھ باقی جماعتوں نے تسلیم کرلیا حالانکہ اے این پی کے سوا باقی چھوٹی جماعتوں کو سینیٹ الیکشن میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پھر پیپلز پارٹی نے ازخود یوسف رضا گیلانی کو مرکز سے سینیٹ کا امیدوار بنا دیا۔ اس معاملے پر بھی پی ڈی ایم کی قیادت سے مشورہ نہیں ہوا تھا لیکن پیپلز پارٹی کی خاطر پی ڈی ایم نے نہ صرف اس کے اس فیصلے کو تسلیم کرلیا بلکہ یوسف رضاگیلانی کے لئے بھرپور مہم بھی چلائی۔
یوسف رضاگیلانی کے سینیٹر بننے کے بعد پی ڈی ایم کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی، ڈپٹی چیئرمین جے یو آئی اور سینیٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن نون لیگ کا ہوگا۔ اس کا اعلان اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سیکرٹری اطلاعات میاں افتخار حسین نے سب جماعتوں کے رہنماؤں کی موجودگی میں کیا لیکن افسوس کہ سینیٹ انتخابات میں مقابلہ صادق سنجرانی سے ہو گیا جو ریاست کو زرداری صاحب سے زیادہ عزیز ہیں چنانچہ یہاں ان کا جادو نہ چل سکا۔
جب چیئرمین شپ ہاتھ نہ آئی تو زرداری صاحب نے بچوں کی طرح ضد شروع کر دی کہ اب اپوزیشن لیڈر کا عہدہ نون لیگ کی بجائے ان کی پارٹی کو دیا جائے۔ پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں نے ان کو بہت سمجھایا کہ یہ وعدہ خلافی ہے لیکن وہ مصر رہے۔ پی ڈی ایم میں شامل دیگر نو جماعتیں اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) کی ہمنوا رہیں لیکن پیپلز پارٹی پھر بھی مصر رہی۔ یہ اصرار ایسے عالم میں ہوتا رہا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں زرداری صاحب نہ صرف استعفوں کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے بلکہ ساتھ ہی میاں نواز شریف کو طعنے بھی دیے۔ یہاں بھی پیپلز پارٹی کی خاطر مولانا اور نواز شریف نے یہ درمیانی راستہ نکالاکہ بے شک سندھ اسمبلی نہ توڑی جائے لیکن پیپلز پارٹی قومی اسمبلی سے استعفوں پر بھی تیار نہیں تھی۔
اصولی طور پر پی ڈی ایم کی قیادت اس اجلاس میں پیپلز پارٹی کو الوداع کہہ سکتی تھی لیکن اسے فیصلہ کرنے کے لئے اپنے سی ای سی سے مشاورت کا موقع دیا۔ یہاں بھی زرداری صاحب نے فوری اجلاس بلانے کے بجائے چار اپریل کی تاریخ رکھ دی جس دن ہر سال ان کا اجلاس ہوا کرتا ہے۔ ابھی پی ڈی ایم کی قیادت کو چار اپریل کے سی ای سی کے اجلاس کا انتظار تھا کہ اپوزیشن لیڈر کے لئے زرداری صاحب نے وہی حربے آزمانے شروع کئے جو مخالف جماعتوں کے ساتھ انتخابات کے دنوں میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے منحرف سینیٹر دلاور خان اور پی ٹی آئی اور باپ پارٹی کے فارورڈ بلاک کے سینیٹرز کو ساتھ ملایا اور اے این پی کو بھی توڑ دیا ( واضح رہے کہ بلوچستان میں اے این پی باپ پارٹی کی حکومت کا حصہ ہے اور اس کا سینیٹر بھی باپ پارٹی کے تعاون سے بنا ہے)۔ مطلوبہ تعداد کے دستخط لے کر وہ گیلانی صاحب اس صادق سنجرانی کے پاس درخواست لے کر گئے جن کی چیئرمین شپ کو انہوں نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
افسوس یہ ہے کہ اس سارے عمل میں زرداری صاحب نے بلاول بھٹو کی لانچنگ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ سب سے زیادہ نقصان خود پیپلز پارٹی کو پہنچ رہا ہے کیونکہ وہ ایک قومی جماعت سے سندھ کی جماعت بنتی جا رہی ہے اور ہر ذہن میں یہ بات بیٹھ رہی ہے کہ سندھ حکومت زرداری کی کمزوری اور نیب کیسز مجبوری ہیں جن کے گرد اب پیپلز پارٹی کی سیاست گھوم رہی ہے ۔