02 اکتوبر ، 2012
کراچی…محمد رفیق مانگٹ… ممبئی حملہ کیس کے سلسلے میں پاکستانی تفتیش کاروں کے مواد کا جائزہ لینے کیلئے بھارتی تحقیقاتی ٹیم جلد پاکستان آئے گی۔ بھارتی اخبار کے مطابق پاکستانی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی طرف سے 26/11کے ممبئی واقعے کی تحقیق سے متعلقہ مواد کا معائنہ کرنے کے لئے بھارت اپنی قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) ٹیم پاکستان بھیجنا چاہتا ہے۔اس سلسلے میں نئی دہلی جلد ہی اسلام آباد کوایک باضابطہ درخواست لکھے گی۔گزشتہ ہفتے مالدیپ میں سارک کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار شندی اور پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک کے درمیان ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا گیا۔رحمن ملک نے سوشیل کو یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان بھارتی درخواست کو قانونی دائرے میں دیکھیگا۔ حکام نے بھارتی عدالت کی طرف سے ممبئی واقعے کے متعلق پاکستان سے مدد کی درخواست(LR)ایل آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے ایک باضابطہ درخواست لکھی جا ئے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ اسلام آباد اس پر اتفاق کرے گا اور وہ این آئی ٹیم کو دورہ کی اجازت دے گا۔انہوں نے کہا کہ”اگر پاکستان نے اتفاق کرلیا تو پاکستانی جوڈیشیل کمیشن کے ممبئی کیس کی چار گواہوں کے دوبارہ ایگزمنز کیلئے بھارت آنے سے قبل NIA ٹیم اسلام آباد کا دورہ کرے گی۔ ذرائع کے مطابق بھارتی ٹیم لشکر طیبہ کے تربیتی کیمپ سے قبضہ میں لی گئی اشیاء سمیت ال حسینی کشتی کا معائنہ کی بھی کوشش کرے گی جو مبینہ طور پر دہشت گردوں نے استعمال کی۔ممکن ہے کہ ٹیم ان پانچ پراسیکیوشن گواہان تک بھی رسائی حاصل کرے جنہوں نے انسدا دہشت گردی کی عدالت میں دہشت گردوں کی تربیت کے متعلق گواہی دی ۔لیکن بھارتی ٹیم کی رسائی کی اجازت کا انحصار ایل آر کے دائرہ کار کے تحت پاکستان پر ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان اپنی سرزمین پر بھارت کوکسی ایسی تحقیق کی اجازت دینے سے انکاری تھا تاہم اب دونوں اطرف کے ممالک نے NIA اورFIA کے درمیان اہم معاملات پر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔رحمن ملک پاکستانی درخواست کو سوشیل کے سامنے پیش کریں گے کہ پاکستانی جوڈیشیل کمیشن کو دوبارہ ایگزامنز کے لئے بھارت کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق پاکستانی جوڈیشیل کمیشن کو ممبئی دورے کی اجازت دے دی جائے گی لیکن کچھ اہلکاروں کے درمیان حکام کے اس اقدام پرکچھ مزاحمت ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں کہ پاکستان اس کیس پر کوئی اور شرائط نہیں رکھے گا۔