بلاگ
Time 16 اپریل ، 2021

ریاستی رٹ کمزور نہیں!

فوٹوفائل

ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کی گرفتاری کے بعد جو احتجاج شروع ہوا۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔ ملک کے کئی بڑے شہر، موٹر ویز، جی ٹی روڈ بند کردیے گئے۔ بڑے شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں کے علاوہ شہروں کے اندر بھی سڑکیں و راستے مشتعل مظاہرین نے قبضہ کرکے بلاک کردیئے۔ 

عام شہریوں کو نہ صرف آمدورفت میں مشکلات پیش آئیں بلکہ مریضوں کواسپتال پہنچانے والی ایمبولینسز کو بھی گزرنے نہیں دیا گیا۔ اسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کے لیے آکسیجن پہنچانے والے کنٹینرز کو بھی روکا گیا۔ اس کے علاوہ ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں اور افسروں کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔

 مشتعل مظاہرین کے تشدد سے دو باوردی پولیس اہلکار شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ کچھ پولیس اہلکاروں کو اغوا کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ ملک خصوصاً پنجاب میں حکومت کی عملداری ختم ہوچکی ہے۔

عام شہریوں سے لے کر پولیس اہلکاروں پر تشدد، سرکاری اور عام شہریوں کی املاک کو جلانے اور نقصان پہنچانے کا یہ سلسلہ تقریباً تین روز جاری رہا۔ آخر کار پنجاب حکومت کی درخواست پر رینجرز کو طلب کیا گیا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا اور راستے کھولنے کا عمل شروع ہوا۔ اس تمام صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے چند سوالات ہر پاکستانی کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ مثلاً کیا وفاقی اور بالخصوص پنجاب حکومت کو پہلے سے معلوم نہیں تھا کہ ایسی صورتحال بن سکتی ہے۔

 اور اس سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی بنائی گئی تھی اور جب اچانک احتجاج پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوا تو پھر3دن پنجاب حکومت خاموش تماشائی کیوں بنی رہی؟ مشتعل مظاہرین جو احتجاج کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ کیا وہ اچانک بلوائی بن گئے یا یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا اور حکومت اس سے بے خیر کیوں تھی؟ 

جب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے بقول وہ تین ماہ سےاس جماعت کے قائدین سے بات چیت کر رہے تھےتو وہ یہ کیوں نہیں سمجھ سکے کہ ان کے مطالبے کو نہ ماننے کی صورت میں ان کے کیا ارادے ہوں گے؟ اگر حکومت کے لیے ان کا مطالبہ ماننا ممکن نہیں تھا تو پھر ان کے ساتھ معاہدہ کیوں کیا گیا اور ان سے وقت کیوں مانگا جاتا رہا۔ اگر اس جماعت اور حکومت کے درمیان کئے گئے معاہدے میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا تو آٹھ دن قبل ہی اس جماعت کے قائد نے اپنے کارکنوں کو مارچ کرنے کاکیوں کہا تھا؟

اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں اور ان سوالوں کے جوابات قوم کے سامنے آنے بھی چاہئیں۔ حکومت کچھ بھی تاویل پیش کرے لیکن یہ تسلیم کرناچاہئے کہ ریاستی رٹ کمزور نہیں ہے بلکہ یہ پنجاب حکومت کی بڑی ناکامی ہے جو ایسی صورتحال کے لیے حکمت عملی بناسکی اور نہ ہی اس سے نمٹ سکی۔ ر

یاستی رٹ کو کمزور سمجھنے والی مذکورہ جماعت کی غلط فہمی تھی کہ وہ ایسی صورتحال بناکر ریاست کو بلیک میل کرسکے گی۔ ناموس رسالت کے نام پر فساد فی الارض برپا کرنے کی اجازت نہ تو مذہب اسلام دیتا ہے نہ ہی ریاستی قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ جماعت جو نعرہ بلند کرنے نکلی تھی وہ تو فساد کی نذرہوگیا۔ 

اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ اسلام تو غیر مسلموں کے بھی جان و مال کی حفاظت کا ضامن دین ہے۔ چہ جائیکہ اسلام کے نام پر لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچایا جائے۔ مہذب معاشرے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اگر احتجاج کی نوبت آجائے تو اس کو پرامن انداز میں حل کیا جائے بصورت دیگر اس کو بلوہ سمجھا جاتا ہے۔ اور بلوے کو روکنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ فوج اور پولیس کی وردی سے لوگوں میں احساس تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ 

اب اگر امن قائم کرنے والوں پر جان لیوا تشدد کرکے ان میں سے بعض کو شہید اور بعض کو شدید زخمی کیاجائے اور ان کی وردیوں کو پھاڑا جائے اس کو فساد نہیں تو اور کیا کہا جائے؟ معاہدے کی مدت تکمیل سے پہلے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کو کون درست کہے گا۔ جن کی جانیں گئیں، املاک کو جلایا گیا۔

 شہریوں اور مریضوں کو جس اذیت سے گزرنا پڑا ان تمام جانی و مالی نقصانات اور اذیت کا ذمہ دار کون ہے؟ ایسا کیوں اور کس کے کہنے پر کیا گیا اور اس فساد کو برپا کرنے، کارکنوں کو مشتعل کرنے، بلوؤں پر اکسانے کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبے کے تحت ہوا۔ تین دن سے زائد عرصہ ملک کو جام کرانے کا مقصد ناموس رسالت نہیں بلکہ کچھ اور نظر آرہا ہے۔

اب وفاق کو چاہئے کہ پنجاب کے بارے میں کوئی ایسا فیصلہ کرے کہ اور کچھ نہیں کم ازکم امن و امان کا قیام تو یقینی بن جائے۔ عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت کا فرض ہے۔ ریاستی عملداری ہرگزکمزور نہیں البتہ کوتاہیاں اور غلط فیصلے ریاستی عملداری پر ضرور اثرانداز ہوتے ہیں۔ ﷲ پاک پاکستان اور ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔