بلاگ
Time 20 اپریل ، 2021

کوئی صورت نظر نہیں آتی

ملک میں بننے والی معاشی اور سیاسی صورت حال کو اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا۔ چار، پانچ ماہ قبل اپنے ایک کالم میں اس بننے والی صورتحال کے بارے میں لکھا تھا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ وزیراعظم عمران خان ذاتی طور پر اور ان کے کچھ مخلص ساتھی چاہتے ہیں کہ ملک میں امن و امان ، معاشی اور سیاسی حالات میں بہتری اور ٹھہراؤآئے۔

 لیکن یہ ان کی خواہش تو ہے عملی طور پر اس کا کوئی مظاہرہ سامنےنہیں آتا۔ اس کی کیا وجہ ہے یہ تو وہ جانتے ہوں گے۔ کچھ عرصہ پہلے اپنی ایک تقریر میں وزیراعظم نے دو اہم باتیں کی تھیں۔ ایک یہ کہ دو سال کے عرصے میں تو وہ ملکی معاملات اور حکومتی تقاضے سیکھتے اور سمجھتے رہے، اور چونکہ اب وہ سمجھ چکے ہیں سیکھ چکے ہیں اس لئے اب گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسری اہم بات وزیراعظم نے یہ کی تھی کہ اب ہم ملکی ترقی اور عوام کی مشکلات کے حل کی طرف بڑھ رہے اور بہت جلد ہماری کاوشوں کا ثمر قوم کے سامنے ہوگا۔ وزیراعظم کے اس بیان اور دلاسے پر قوم نےگھبرانا چھوڑ دیا اور سکھ کا سانس لیا۔ یوں وقت تو گزرتا رہا ہے لیکن نہ تو قوم کے سامنے اب تک وہ ثمر آیا، نہ ہی حالات میں کوئی بہتر ی آئی۔ 

 البتہ تبدیلی ضرور آئی اور وہ اس طرح کے قوم خصوصاً عوام کے حالات بد سے بدتر ہونا شروع ہوگئے۔ جو لوگ وزیراعظم خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے جانتے ہیں اور قریب سے جانتے ہیں وہ یقیناً اس بات کی تصدیق کریں گے کہ عمران خان بددیانت ہرگز نہیں ہیں۔ نہ ہی ان کو دولت اکٹھی کرنے کا شوق یا خواہش ہے۔ البتہ وہ سادہ طبیعت ضرور ہیں، 

 یہی وہ خوبیاں ہیں جن کا حامل حکمران ملک و قوم کی منجدھار میں پھنسی ہوئی کشتی کو باہر نکال کر ساحل پرپہنچا سکتا ہے۔ لیکن ان خوبیوں کے باوجود قوم کی کشتی کو کیا نکالنا، حکومتی کشی خودمنجدھار میں پھنسی ہوئی ہے۔ آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ مسلسل ناکامی ہی ناکامی ہے بلکہ حالات کی ابتری میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

چینی کی قیمتوں میں اضافہ کنٹرول کرنے کا اعلان کیا گیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ اب بازار میں چینی ہی نہیں ملتی۔ چینی مافیا کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان باقی اعلانات کی طرح بس اعلان ہی رہا۔ آٹا مافیا کے خلاف کارروائی کا بھی یہی حال ہوا۔ پیٹرول مافیا کے خلاف کارروائی کے اعلان کا تو نتیجہ ہی الٹا نکلا جیسا کہ پاور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا نتیجہ ہے کہ ان دونوں مافیاز کے ساتھ کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتے کرنے پڑے۔

 33ماہ میں چار وزیر خزانہ تبدیل ہوئے۔ کابینہ میں وزراء اور بیوروکریسی خصوصاً پنجاب میں افسران کی تبدیلیوں کا پہلے دن سے بننے والا میوزیکل چیئر کھیل تاحال جاری ہے۔ اگر تبدیل نہیں ہوتے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ تبدیل نہیں ہوتے۔ یعنی روزانہ پرزے تبدیل کئے جاتے ہیں پھر بھی گاڑی نہیں چلتی تو نہ چلے لیکن انجن کو تبدیل نہیں کرنا ہے۔ اس عدم تبدیلی کی یار لوگ مختلف ترجیحات اور وجوہات بیان کرتے ہیں لیکن اصل وجہ یا وجوہات تو وزیراعظم صاحب ہی جانتے ہیں ۔

آئے روز پنجاب میں پولیس اور بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران اور ذمہ داران کی تبدیلیوں کی لسی بنانے سے بہتری کے بجائے مزید ابتری پھیلرہی ہے۔ اب سنا ہے کہ پنجاب میں پولیس اور بیوروکریسی میں تبادلوں کا ایک اور جھکڑ چلنے والا ہے۔

یہ بات کس کو اور کیسے سمجھائی جائے کہ ان مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے ہی حکومتی مشینری کے چلنے میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ کسی اعلیٰ افسر کو یہ بھروسہ نہیں کہ وہ کل بھی اسی دفتر میں بیٹھے گا یا کل کا ٹھکانہ کہیں اور ہوگا۔ یہ تو عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایسے حالات میں افسران سرکاری امور کس طرح تندہی اور یکسوئی کے ساتھ نمٹا سکتے ہیں۔

 اس لئے یہ بات درست نہیں کہ بیوروکریسی میں چونکہ زیادہ تر لوگ سابقہ حکومت کے لگائے ہوئے، ان کے قریبی ہیں اس لئے وہ اپنے فرائض صحیح طور پر سرانجام نہیں دیتے ۔ ہر حکومت میں سابقہ حکومت کے افسران ہوتے ہیں لیکن کبھی ایسی شکایت اور ناکامی کی وجہ یہ نہیں سنی ۔ 

حکومتیں اپنی پالیسیوں اور گورننس کی وجہ سے کامیاب یا ناکام ہوتی ہیں ۔ بیوروکریسی تو حکومتی مشینری ہے اگر مشینری کو چلانے والا انجینئر یا فورمین اس کو چلانا جانتا ہو تو تھوڑی بہت خرابی کے باوجود بھی چلا لیتا ہے اور اس تھوڑی خرابی کو بھی دور کرلیتا ہے۔

حکومتی اعلانات کے باوجود یوٹیلیٹی اسٹورز اور رمضان بازاروں کے علاوہ عام بازاروں میں مہنگائی پکڑائی نہیں دے رہی۔روزمرہ اشیا ء کے نرخ بھی روزمرہ حساب سے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ عام آدمی کو اس میں کوئی دلچسپی یا فائدہ نہیں ہے کہ کس سیاستدان کے خلاف آج کو ن سا نیا کیس بنا ہے یا کس مخالف کو کس طرح زیر کیا گیا۔ کس سرکاری وزیر مشیر نے کس کے خلاف کیسی زبان استعمال کی اور اس کا جواب کیا آیا۔

 بھلا عام آدمی کو ان سیاسی بیہودگیوں میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ عام آدمی تو اپنے مسائل کا حل اور مشکلات میں کمی چاہتا ہے ۔ ملک میں سستا اور فوری انصاف چاہتا ہے۔ امن و امان چاہتا ہے۔ عزت نفس چاہتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ یہ سب ناپید ہیں۔

 جیسا کہ شروع میں عرض کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان بددیانت بالکل نہیں ہیں لیکن شاید وہ جن کے مشوروں پر چلتے ہیں وہ یا تو ان کے ساتھ مخلص نہیں اور ان کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں یا وہ حکومت کو وقتی کھیل اور دبدبے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ تاہم آنے والے دنوں یا چند ہی مہینوں میں قوم بڑی بڑی تبدیلیاں دیکھے گی۔ اور تب بہتری کا دور شروع ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔