ہمارے نصاب میں بھی فحاشی ہے

قوم کو مبارک ہو کہ ہم نے ایک اور سازش پکڑ لی ، اِس مرتبہ یہ سازش اغیار نے نہیں بلکہ اپنوں نے کی تھی اور وہ بھی بچوں کے خلاف۔ ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ ہمارے معصوم بچوں کو سائنس کے نام پر فحش مواد پڑھایا جا رہا ہے ۔ 

بھلا ہو متحدہ علما بورڈ کا جس کے ذمے نصابی کتب کی پڑتال کا کام ہے ، علما کے اِس بورڈ نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ناشران کو ہدایات کی ہے کہ حیاتیات کی کتاب میں انسانی اعضاء کی تصاویر بغیر کپڑوں کے شائع نہ کی جائیں ، اِس کے علاوہ معزز ممبران نے ریاضی کی کتاب میں سے سود اور مارک اپ جیسے الفاظ ہذف کرنے کا حکم بھی دیا۔

جب سے میں نے یہ خبر پڑھی ہے خود کو کوس رہا ہوں کہ ایسی دور اندیشی خدا نے مجھے کیوں عطا نہیں کی ، کس قدر سادہ حل تھا، مگرمیرے ذہن میں ہی نہیں آیا کہ سود سے چھٹکارا پانے کے لیے فقط اتنا ہی کافی ہے کہ یہ لفظ کتابوں سے نکال دو ، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اسی طرح سچ پوچھیں تو بیالوجی کی کتاب بھی ہمیشہ سے میرے لیے درد سر ہی رہی ہے کہ کسی اسکول کا استادمعصوم بچوں کو تولیدی نظام والا باب کیسے پڑھائے گا اور وہ بھی با تصویر۔ 

چلیے یہ مسئلہ بھی حل ہوا۔لیکن کچھ چھوٹے موٹے مسائل اب بھی باقی ہیں جن پر علما بورڈ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثلاً میڈیکل کالجوں میں سائنس کے نام پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے اُس پر بھی فی الفور پابندی لگنی چاہیے ، جوان لڑکے لڑکیاں وہاں اکٹھے پڑھتے ہیں اور انہیں میڈیکل سائنس کی آڑ میں برہنہ تصاویر والی کتب پڑھائی جاتی ہیں ،میری رائے میں ایسی تمام کتابوں کی پڑتال کا کام بھی علما بورڈ کو تفویض کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس میں سے قابل اعتراض مواد نکال کر اسے پاک صاف کر دیں۔

 یہاں بھی وہی سود کے الفاظ ہذف کرنے والا نسخہ استعمال ہوگا،یعنی جو چیزیں ہم ان کتابوں میں سے نکال دیں گے اُن کا وجود گویا اپنے آپ ہی دنیا سے ختم ہو جائے گا۔میں تو کہتا ہوں کہ میڈیکل کالجوں میں امراض چشم اور دنداں کے علاوہ باقی تمام شعبوں کو ختم کر دینا چاہیے ، خاص طور سے گائینی کی تو بالکل کوئی گنجائش نہیں ، کیا کوئی صالح اور پاک باز شخص اپنی بیٹی کو وہ تمام کتابیں پڑھنے کی اجازت دے سکتا ہے جو گائیناکولوجی کے نام پر اِس ملک میں پڑھائی جاتی ہیں ؟ کم از کم میری غیرت تو یہ گوارا نہیں کرتی۔

یہا ں کچھ مادہ پرست اور سائنس کے پجاری واویلا کریں گے کہ اس قسم کے اقدامات سے ملک میں جہالت کو فروغ ملے گا ، ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ علم کے حصول کے بارے میں مذہبی تعلیمات کا حوالہ بھی دیں ۔ سائنس کے اِن غلاموں کو میرا جواب ہوگا کہ مذہب تمہیں صرف اسی وقت یاد آتا ہے جب تمہاری دم پر پاؤں آتا ہے وگرنہ کبھی ایک کلمہ خیر مذہب کے بارے میں تمہارے قلم سے نہیں نکلتا۔

دوسرا جواب میرا یہ ہوگا کہ ہماری پوری نسل یہ سُن کر جوان ہوئی کہ آسمان سے فرشتہ آ کر ماں کی گود میں بچہ ڈال کر چلا جاتا ہے ،ہمیں تو کبھی جہالت کا احساس نہیں ہوا، میں تو کہتا ہوں کہ حیاتیات والے باب میں یہی پڑھانا چاہیے ،اِس سے انسانی اعضا کی تصویر بنانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

جدیدیت کے پیروکار ایک اعتراض یہ بھی کریں گے کہ اگر میڈیکل سائنس پر پابندی لگائی گئی تو پھر ہمارے نوجوان ڈاکٹر کیسے بنیں گے اور اگر ڈاکٹر نہیں بنیں گے تو لوگ علاج کس سے کروائیں گے ۔ یہ سوائے کج بحثی کے کچھ نہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کون احمق میڈیکل سائنس پر پابندی لگانے کی بات کر رہا ہے ، میرا تو فقط یہ کہنا ہےکہ سائنس کے نام پر فحاشی بند کی جائے اور ظاہر ہے کہ اس میں گائینا کولوجی بھی شامل ہے ۔

ویسے تو اِس مسئلے کا حل بھی علما بورڈ والے نکال لیں گے مگر اِس احقر کی دلیل یہ ہے کہ گائنی وغیرہ نئی نسل کے چونچلے ہیں ، آج سے 40 50 سال پہلے کہاں یہ فیشن تھا کہ حاملہ عورت کو لے کر اسپتال دوڑتے پھرو،محلے کی جہاندیدہ دائی گھر آ کر بچہ پیدا کر وا دیتی تھی، دو چار سو میں کام نمٹ جاتا تھا۔ایک عورت با آسانی 10،12 بچے پیدا کرتی تھی ، 2،4 مر مرا بھی جاتے تو سات آٹھ صافی بچ جاتے تھے ۔آج کل کی لڑکیاں 9مہینے تک یوں ہائے وائے کرتی ہیں جیسی دنیا میں پہلا بچہ پیدا کرنے لگی ہوں۔سب دماغ کا خناس ہے جو میڈیکل سائنس نے پیدا کیا ہے۔

میں چونکہ اس نام نہاد سیکولر اور آزاد خیال طبقے کی رگ رگ سے واقف ہوں سو اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ میرے دلائل کا مذاق اڑائیں گے اور کہیں گے کہ اگر علما بورڈ سائنس اور ریاضی کی کتابوں کی پڑتال کرسکتاہے تو پھر اِن کے مدارس میں فقہ کی جو کتب پڑھائی جاتی ہیں اُن کی پڑتال پاکستان انجینئرنگ کونسل اور پاکستان میڈیکل ایند ڈینٹل ایسوسی ایشن کو کرنی چاہیے ۔

 اِس ذہنی افلاس کا یوں تو کوئی علاج نہیں فقط اتنا کہنا کافی ہے کہ ہمارے علما سائنس کو سمجھنے کیلئے کسی دوسرے شعبے کے ماہر کے محتاج نہیں ،ایک مثال سے ان کا منہ بند کیے دیتا ہوں۔ 

دنیا بھر کی سائنس کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ زمین گول ہے جبکہ ہم نے یہ سائنسی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ زمین چپٹی ہے۔بات چونکہ یکساں قومی نصاب سے شروع ہوئی تھی جس کا مقصد ایک مثالی قوم کی تشکیل ہے تو اِس ضمن میں ضروری ہے کہ نصاب میں اتحاد بین المسلمین کے مقصد کے تحت تمام مکاتب فکر کے علما کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ۔

 جس طرح زمین کے چپٹے ہونے کے بارے میں مضمون سائنس کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے اسی طرح ’بہشتی زیور ‘ لڑکیوں کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک مثالی بیوی کیسی ہوتی ہے ،شوہر اگر اسے حکم دے کہ ساری رات ہاتھ باندھے کھڑی رہے تو حکم کی تعمیل کرے ،شوہرکی آنکھ کے اشارے پر چلے ،کبھی اس کے سامنے چو ں نہ کرے ۔ یہ ہے وہ مثالی نصاب جو لڑکیوں کو اسکولوں میں پڑھایا جانا چاہیے ، اسی میں ہم تمام شوہروں ، معافی چاہتا ہوں، ہم سب کی بھلائی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔