12 جون ، 2021
سچ نے جھوٹ سے کہا، آئو اکٹھے نہاتے ہیں۔ کنویں کا پانی بہت اچھا ہے۔ دونوں نے کپڑے اتارے اور نہانے لگے۔ اچانک جھوٹ پانی سے نکلا، سچ کے کپڑے پہنے اور موقع سے فرار ہو گیا۔ سچ کپڑے واپس لینے غصے میں ننگا ہی کنویں سے نکلا تو دنیا اسے ننگا دیکھ کر غصہ اور توہین کرنے لگی۔ بیچارہ سچ شرم کے مارے واپس کنویں میں جاکر ہمیشہ کے لئے چھپ گیا۔ اس وقت سے جھوٹ سچ کے کپڑے پہنے دنیا میں بھاگتا پھر رہا ہے اور دنیا بہت خوش ہے کیونکہ اسے ننگا سچ جاننے کی کوئی خواہش ہی نہیں۔ ممتاز فرانسیسی مصور جین لیوں گروم کی 1896میں بنائی گئی ایک پینٹنگ سے ماخوز یہ آفاقی واقعہ آج کے پاکستان کی تصویر پیش کرتا ہے۔
ہمیں بچپن سے ہی سرکاری سرپرستی میں جھوٹ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو ہمارے بچوں کو پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان کی کسی بھی جماعت کی کتاب اٹھا لیں، آپ کو دو چیزیں ملیں گی۔ شیخیوں سے بھرپور اپنی جھوٹی تعریفیں اور غیرمسلموں سے نفرت۔ تعلیم تو جھوٹ اور نفرت سے آزادی دلاتی ہے مگر ہمیں یہ دونوں برائیاں ہمارے نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں۔ نفرت کی بات پھر سہی پہلے سچ سے نمٹ لیں۔ مجھ سمیت سب کا دعویٰ ہے کہ ہم سچ بولتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ وقت آن پڑے تو ہم سچ کے اصولوں کو بھول جاتے ہیں اور سچ کے کپڑوں میں ملبوس جھوٹ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
صحافت میں آئے دو دہائیاں بیت گئیں۔ جس شخص سے ملتا ہوں اس کا دعویٰ یہی ہوتا ہے، ’’میں ذرا مختلف آدمی ہوں، سیدھی، سچی اور کھری بات کرتا ہوں چاہے کسی کو کتنی ہی بری کیوں نہ لگے‘‘ لیکن ذرا کریدیں یا تحقیق کریں تو حقیقت دعوے سے مختلف نکلتی ہے۔ جدید دور میں میڈیا سچ کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ آپ کسی ٹی وی اینکر یا سوشل میڈیا پر متحرک پہلوان کو دیکھیں، سب کا دعویٰ ’’سچ‘‘ ہے۔ ملک میں سچ کا علمبردار میڈیا/ سوشل میڈیا ہے مگر سچ نہیں۔ وجہ ایک تو یہ ہے کہ مرکزی دھارے کے اخبارات و ٹی وی چینلز پر کڑی نگرانی ہے اگر وہ غلطی سے حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے کسی ناپسندیدہ موضوع پر بات کریں تو انہیں اشتہارات یا کیبل پر نشریات کی بندش سے اس ’’سچ‘‘ کا فوری خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ لہٰذا میڈیا کے ادارے سچ اتنا ہی بولتے ہیں جتنا ہضم کر سکیں۔ ایک خاص حد سے آگے سچ کو پسند کیا جاتا ہے نہ شائع و نشر۔ ہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ وہی سچ ہے جو دراصل سچ نہیں بلکہ سچ کے کپڑوں میں ملبوس جھوٹ ہے۔
ہمارے ہاں کچھ سچی خبریں ایسی آتی ہیں جسے میڈیا نظر انداز کردیتا ہے۔ یہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے متعلق طاقتور شخصیات، اداروں کی بھی ہوتی ہیں اور کچھ طاقتور پراپرٹی و بزنس ٹائیکون بھی اسی استثنیٰ سے فائدہ اٹھاتے ہیں لہٰذا عوام کو پورا سچ پتہ نہیں چلتا کیونکہ میڈیا اول تو خبر کا مکمل بلیک آوٹ کردیتا ہے یا اس خبر کو ایسے ملفوف انداز میں نشر کرتا ہے کہ اس کے معنی مرجاتے ہیں۔ عام آدمی کو پورا سچ پتہ نہیں چلتا اسی لئے وہ بعض شخصیات یا اداروں کی اندھی محبت کا شکار ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار تو اس محبت میں مرنے مارنے پر بھی اتر آتا ہے۔ اس سارے عمل میں قصور یقیناً آدھا سچ نشر اور شائع کرنے والوں کا ہے۔ سچ کی مارکیٹ میں قلت کو سوشل میڈیا پر مختلف افراد اپنے اپنے انداز میں ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ان میں بھی اکثریت یا تو جمہوریت کش طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتی ہے یا پھر طاقت کے حصول کے لئے کوشاں مختلف سیاسی جماعتوں کی۔ سچ کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر اپنے اپنے سرکاری یا نجی آقائوں کا بیانیہ دیا جاتا ہے نہلے پے دہلا یہ کہ سچ کے پائوں کو معاشرے اور مذہب کی بیڑیاں الگ سے پہنائی جاتی ہیں۔
جین لیوں گروم کی تخلیق کردہ سچ کی بےبسی دیکھنا ہو تو صرف اسلام آباد ہائَیکورٹ کے معزول کیے گئے جج جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا سپریم کورٹ میں اپنی برطرفی کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران دیا گیا بیان دیکھ لیں، جو کہیں شائع نہیں ہو سکا۔ زیرحراست ایم این اے علی وزیر کے کیس کی تفصیل یا ان کا موقف دیکھ لیں جو کہیں شائع کرنے کی اجازت نہیں یا پھر کراچی میں ایک نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے خلاف احتجاج دیکھ لیں اور پتہ کرنے کی کوشش کریں کہ ان سب معاملات پر خبریں کہاں شائع یا نشر ہوئیں۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ اول تو کہیں کچھ بھی شائع یا نشر نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو اس میں تمام کردار غائب کر دیے گئے ہیں یعنی جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ تو پھر کیا ہم دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم سچ بول رہے ہیں؟ میرے خیال میں ہم سچ نہیں بول رہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ فرانسیسی مصور جین لیوں گروم زندہ ہوتے تو وہ پاکستان جیسے ملک میں سچ کی تازہ صورتحال پر کوئی نئی تخلیق کرتے یا نہیں لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ پاکستان میں سچ کے کپڑے پہنے جھوٹ تو سرکاری سرپرستی میں میڈیا پر سرعام گھومتا پھررہا ہے لیکن شرمندگی سے چھپے پھرتے ننگے سچ کو زبردستی اغوا کرکے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اصل چیلنج تو اغوا کاروں سے سچ کی بحفاظت بازیابی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔