’’گُڈ فِیل‘‘ سیاسی معیشت کا دیوالیہ پن

فقط چند ہفتوں میں وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین کی فیاضی ہے کہ مالی و مالیاتی خزاں میں بھی انہوں نے ’’گُڈ فِیل‘‘ کی موہوم امید کی لو لگادی ہے، بھلے آئندہ منتخب ہونے والوں کو ویسے ہی ہاتھ ملنے پڑیں جیسا کہ وزیراعظم عمران خان کو تقریباً تین سال ملنا پڑے۔ بیچاری حزب اختلاف بھی دانت پسیج کے رہ گئی کہ کہے تو کیا کہ اس کا معاشی فکری ڈھانچہ بھی وہی ہے جس کا سُوتا نیو لبرل معیشت کے واشنگٹن اتفاق رائے سے پھوٹتا ہے۔ 

ایسے میں بلاول بھٹو کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں فقط 10فیصد ایڈہاک اضافے اور کم از کم اجرت 20ہزار روپے مقرر کرنے کے خلاف دہائی سماجی ویرانے میں ایک چیخ کے سوا کچھ نہیں۔ اب بھلا دست نگر معیشت کے بحرانی حالات میں کوئی بجٹ بنائے بھی تو کیسے جس میں 8.5 کھرب روپے کے بجٹ میں بجٹ خسارہ تقریباً آدھا یعنی 4 کھرب روپے ہوگا (جی ڈی پی کا 7.4 %) جو 4 کھرب کے نئے قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔

 بظاہر تو آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے کا دعویٰ کیا گیا ہے، لیکن عالمی مالیاتی ادارے سے 3.1ارب ڈالرز یعنی 496ارب روپے ملنے کی امید باندھی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر 150ارب روپے کے آئی ایم ایف کے مطالبے کو ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور پٹرولیم لیویز کے ذریعہ پورا کرلیا گیا ہے اور 383ارب روپے کے نئے بالواسطہ ٹیکس عائد کردئیے گئے ہیں۔

 وزیر خزانہ نے اگر کوئی مالیاتی رسہ تڑایا بھی ہے تو وہ صرف یہ کہ 2023ء کے انتخابات کے لیے حکمران جماعت کی سیاسی ضروریات کے پیش نظر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں 40فیصد اضافہ کر کے اسے 900ارب روپے کردیا گیا ہے اور 64ارب روپے علیحدہ سے وزارت خزانہ کے پاس رکھ دئیے گئے ہیں کہ اراکین اسمبلی کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جاسکیں اور بجٹ پاس کروانے کیلئے ترین گروپ سمیت ناراض اراکین کے ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔ 

اگر مراعات اور رعایات دی گئی ہیں تو صرف سرمایہ دار طبقے کو ۔ محنت کش اور تنخواہ دار لوگوں کو غربت کی اجرتوں پہ سسکنے کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ بس ایک ثانیہ نشتر ہیں جنہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لاج احساس کی تختی تلے 260ارب روپے کے خیراتی پروگراموں کے ذریعہ برقرار رکھی ہے۔ ذرا وفاق کی مالی حالت ملاحظہ ہو:وفاق کے پاس نقد 4.4 کھرب روپے میں سے 3.1کھرب قرضوں اور سود کی ادائیگی کے بعد بچے 1.4کھرب روپے، جبکہ دفاع پر 1.370 کھرب روپے خرچ کرنے کے بعد 100 ارب خسارہ رہ جاتا ہے۔

 اب خیر سے سول انتظامیہ (479ارب) اور پنشنر پہ (480ارب) خرچ (جس میں مسلح افواج کی پنشنز کے360ارب بھی شامل ہیں) اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئےسرکاری خزانے میں ایک ٹکہ نہیں بچتا۔ ان مخدوش مالی و مالیاتی حالات میں کوئی وزیر خزانہ کوئی کرتب دکھائے بھی تو کیا سوائے اعدادوشمار میں ہاتھ کی صفائی کی مہارت کے۔

 7.4فیصد کا بجٹ خسارہ اگر پورا ہوگا بھی تو تب اگر 5.829کے وفاقی آمدنی کے اہداف پورے ہوں جو کہ ممکن نہیں اور بشرطیکہ صوبے 570ارب روپے بچا کر وفاق کا خسارہ پورا کریں۔ 506 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کا دعویٰ تو کیا گیا ہے جو پورا ہوتا دکھائی نہیں پڑتا۔

پاکستان میں تقریباً ہر حکومت کے دور میں پہلے طلب (Demand) کو قابو کرو اور بعدازاں رسد (Supply) کو بڑھائو کا مالی (Fiscal) چکر چلتا رہا ہے۔ ہر حکومت پہلے گزری حکومت کے خسارے پورا کرنے کیلئے طلب کی کمر کستی ہے اور اگلے انتخاب میں ’’گڈ فیل‘‘ کی فضا بنانے کیلئے رسد کے رسے کھولتی رہی ہے۔

 یہی عمران حکومت کررہی ہے جو پہلی حکومتیں کرتی رہی ہیں اور آئندہ آنے والی بھی اسی چکر کو دہرائے گی۔ اس گھن چکر میں کوئی حقیقی پیداواری معیشت کی کنگالی و پسماندگی دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتا ہے نہ ہمہ نو پائیدار ترقی کی جانب پیش رفت کا سوچتا ہے۔

 بس وقت گزارو اور اپنا اپنا کرایہ کمائو اور گھر کو جائو والا معاملہ ہے۔ غیر پیداواری ریاستی اخراجات ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں اور مفت خور استحصالی طبقات، محنت کشوں کی پیدا کردہ زائد قدر کو زیادہ سے زیادہ بٹور کر سرکاری خزانے میں اپنے واجب محصولات جمع کرانے پہ مائل نہیں۔ 

ملکی آمدنی اور اخراجات میں بڑھتی ہوئی تفاوت کو اندرونی و بیرونی قرضوں سے پورا کیا جاتا ہے جو گزشتہ تین برس میں 3کھرب روپے کے اضافے سے 3.8 کھرب روپے ہوچلا ہے جو اگلے دو برس میں 2018ء کے مقابلے میں دو گنا ہوجائے گا۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ مسلم دنیا کی واحد نیوکلیئر پاور کی کل قومی آمدنی بمشکل 300 ارب ڈالرز ہے۔

ہماری زراعت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہے یا پھر جاگیرداروں کے اضافی معاشی جبر کی نذر ہے۔ اب عمران حکومت میں ہم خوراک میں بھی محتاج ملک بن گئے ہیں۔ صنعت محض روزمرہ اشیائے صرف کی پیداوار تک محدود ہے اور صنعتی پیداوار ہر طرح کے خام مال سمیت درمیانی اشیا کی درآمدات کی محتاج ہے۔ برآمدی صنعت کے شعبے ٹیکسٹائلز اور چمڑے تک محدود ہیں یا پھر چاول اور فروٹ کی برآمدات ہیں۔

 ایوب خان کی درآمدات کی متبادل صنعت کاری سے کام چلا نہ برآمدی شعبوں کو مراعات دینے سے کوئی بڑا فرق پڑا۔ تھوڑی بہت ترقی کی بھی تو صرف تجارتی اور خدمات کے شعبوں میں جس میں سماجی خدمات یعنی تعلیم و صحت و ماحولیات و روزگار کی فراہمی شامل نہیں۔ دنیا میں چوتھا صنعتی انقلاب، مصنوعی ذہانت اور سائنسی و اطلاعاتی انقلاب بپا ہے اور پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں ایک دوسرے کے خلاف ’’مودی کا جو یار ہے، غدار ہے‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں یا پھر اسلامو فوبیا کے خلاف نعرہ زن ہوتے ہوئے مغربی فوبیا کا شکار ہوکر صدیوں پرانی سادہ تبادلے (Primitive Exchange) کی قدرتی معیشت کی طرف مراجعت کے روحانی خوابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ 

دست نگر معیشت کی طفیلی سلامتی کی ریاست کی سیاسی معیشت کا اصل سوال مفت خور استحصالی طبقات اور بعدازنوآبادیاتی مقتدرہ کے غیر پیداواری شکنجے کو توڑنا ہے جس کے لیے ہماری پارلیمنٹ میں موجود کوئی ایک جماعت بھی تیار نہیں۔ اب پھر نظریں امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف ہیں۔

 ایسے میں مزدور کی اجرت 20 ہزار روپے اور تنخواہوں میں اضافہ 10 فیصد جبکہ حکومتی جائزے کے مطابق 7رکنی گھرانے کا خوراک کا خرچ 21ہزار روپے ، گھر کے کرائے اور بلوں اور فیسوں کی ادائیگی سمیت پچاس ہزار روپے ہے اور ہمارے قائد عوام کے نواسے اس سے آدھی اجرت (25ہزار) کا تقاضا کررہے ہیں۔ ایسے میں مہنگائی، بیروزگاری اور بھوک سے مرتے محنت کش عوام کس جانب دیکھیں؟ جہانگیر ترین کو ملنے والے این آر او کے بعد بجٹ تو پاس ہوجائے گا اور اپوزیشن شور مچاتی رہ جائے گی کہ اس کے پاس کوئی معاشی متبادل نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔