18 جون ، 2021
پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت 21 لاکھ 59 ہزار 655 زیر التوا مقدمات ہیں اور ملک کے صرف 3 ہزار 67 فعال ججز ان لاکھوں مقدمات کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
بعض مقدمات ایسے بھی ہیں جن کے نمٹنے کا انتظار کرتےکرتے سائل دنیا سے ہی رخصت ہو گئے اور اب ان کی نسلیں یہ کیسز بھگتا رہی ہیں۔
ملک بھرکی ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں ججز کی ایک ہزار 48 آسامیاں تعیناتیوں کی منتظر ہیں۔
سپریم کورٹ میں51 ہزار 138مقدمات زیر التوا ہیں جب کہ ججز کی کل تعداد 17 ہے اور 2 ججز کی آسامیاں خالی ہیں، وفاقی شریعت عدالت میں 178 مقدمات زیر التوا ہیں ۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی لاہور ہائیکورٹ میں کل ججز کی تعداد 60 ہے، جن میں سے 50 سیٹس پر ججز اس وقت کام کر رہے ہیں، 10 ججز کی کمی ہے، زیر التواء مقدمات 1 لاکھ 93 ہزار 30 ہے۔
پنجاب کے ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹس میں 13 لاکھ 45 ہزار 632 سول اور فیملی مقدمات التوا کا شکار ہیں، پنجاب کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں کل 2364 ججز کی گنجائش ہے، جن پر 1616 ججز تعینات جب کہ 748 کی گنجائش اب بھی باقی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ مں ججز کی 40 میں سے 6 آسامیاں خالی ہیں جب کہ 83 ہزار 150 مقدمات زیرالتوا ہیں، سندھ کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں کل 622 سیٹس میں سے 568 پر ججز کام کر رہے ہیں جب کہ خالی آسامیاں 54 ہیں، اسی طرح زیرِ التوا کیسز کی تعداد 1 لاکھ 15 ہزار 296 ہے۔
پشاور ہائی کوررٹ کو 5 ججز کی کمی کا سامنا ہے جب کہ وہاں ججز کی کل تعداد 20 ہے، 42 ہزار 180 مقدمات زیر التوا ہیں، خیبر پختونخوا کی سیشن اور ضلعی عدالتوں میں چلنے والےکیسز کی تعداد اس وقت 2 لاکھ 40 ہزار 436 ہے جب کہ ججز کی متعین کردہ تعداد 596 ہےاور 124 سیٹس پر تعیناتی ہونا باقی ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کی 15 میں سے 5 آسامیاں خالی ہیں، 4 ہزار 663 مقدمات زیر التوا ہیں ، بلوچستان کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں 270 سیٹس میں سے 208 ججز کام کر رہے ہیں اور 15 ہزار 729 کیسز فیصلے کے منتظر ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کی ایک نشست خالی ہے اور 16 ہزار 374 مقدمات زیر التوا ہیں ، جب کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں51 ہزار 849 کیسز زیرِ التوا ہیں، ججز کی کل تعداد 103 ہے جن میں سے 70 کام کر رہے ہیں اور 33 سیٹس خالی ہیں۔
ماہرین قانون زیرِ التوا کیسز کے بڑھتے ہوئے اس ذخیرے کا ذمہ دار مخلتف حلقوں کو قرار دیتے ہیں ۔
سابق ایڈشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جتنے فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر کی جاتی ہیں اس کے مقابلے میں کیسز کے نمٹائے جانے کی رفتار خاصی کم ہے، اس کی بنیادی وجہ عدالتی طریقہ کار ہے جس میں ترامیم کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایک بنچ میں صرف ایک جج کو بٹھایا جائے تو کیسز کا بیک لاگ کم ہو سکتا ہے۔
سینئیر وکیل اور سینیٹر کامران مرتضٰی نے بتایا کہ اگر مثبت سمت میں دیکھا جائے تو عوام کا عدالتوں پر اعتماد اور آگہی بھی کیسز میں اضافے کی وجہ ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ وکیل اور سائل کی غیر ضروری التوا کی درخواستیں کنٹرول کرنا جج کا کام ہوتا ہے،جج پہلے دن کیس کا وقت متعین کرے تو قانونی عمل آدھا رہ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جج اکثر ‘لوز بال‘ کھیل جاتے ہیں، ان کی معاملے پر گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے فیصلے ٹھیک نہیں آتے اور وہ دوباری چیلنج ہو جاتے ہیں ، اکثر مدعی بھی وکیل کے ذریعے کیس کو لٹکائے رکھتے ہیں۔
ماہرین قانون کہتے ہیں اگر حکومت نظام عدل میں بہتری لانا چاہے تو صدر مملکت کی اجازت سے ملک بھر میں ضرورت کے مطابق ایڈشنل اور ایڈہاک ججز تعینات کر کے کیسز کے بیک لاگ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔