19 جون ، 2021
مکروہ ترین گھناؤنے فعل کے مرتکب اس ستر سالہ استاد کا چہرہ ٹی وی سکرین پر دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ دو بالشت لمبی سفید داڑھی، سر پہ ٹوپی والا یہ شیطان مدرسہ میں پڑھاتا تھا۔ آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی واردات سامنے آتی ہے کہ آدمی لرز اٹھتا ہے۔ چند روز پہلے ایک 3،4 سالہ کیوٹ سے بچے کی تصویر دیکھی، خضر نام تھا اس کا، جو باپ کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھا تھا کہ کسی بدبخت کی ڈور نے اس کی شہ رگ کاٹ دی۔
باپ صورت حال سے بے خبر مقتول بچے سے باتیں کر رہا تھا کہ کسی اور موٹر سائیکل سوار نے اسے بچے کی حالت بارے بتایا اور اس سے چند روز پہلے اخبارات میں خبر تھی کہ کسی جوان لڑکی کی موت پر اسے دفنایاگیا۔ اہل خانہ اگلے روز اس کی قبر پر گئے تو قبر ادھڑی ہوئی تھی، لاش ایک طرف اور کفن دوسری طرف پڑا تھا۔
’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘
میں کب سے اخلاقیات کی بربادی کو اس ملک معاشرہ کا اصل المیہ اور مسئلہ قرار دے رہا ہوں لیکن نہیں..... شاید بہت دیر ہو چکی کہ بدکرداری سارے سائونڈ بیریئرز ہی توڑ چکی ہے اور اب اسے ریورس کرنا ممکن نہیں تو سوچتا ہوں، ہوا کیا؟ میں نے وہ ملک بھی دیکھے ہیں جہاں کوئی مفت جانا بھی پسند نہ کرے۔ 80ء کی دہائی میں مڈل ایسٹ کے اتنے چکر لگے کہ تعداد یاد نہیں لیکن یہاں کی دنیا ہی اور ہے۔
کچھ لوگوں کو میری یہ خود ملامتی اچھی نہیں لگتی لیکن میں اس امید پر بکتا جھکتا رہتا ہوں کہ شاید..... شاید..... شاید کبھی کوئی ایسی لہر پیدا ہو جائے جو غلاظت کو کناروں کی طرف اچھال دے لیکن معاملہ نان سٹاپ ہے بلکہ اس میں تیزی آتی جا رہی ہے تو مجھ جیسا فارغ گوشہ نشین سوچتا ہے، ہم اس حد تک کیسے گر گئے؟ کیا برصغیر میں شروع سے ہی ایسے تھے؟ کم تولنے اور ڈنڈی مارنے کی وبا اتنی عام اور راسخ ہو چکی تھی کہ سلاطین دہلی میں سے دو بادشاہوں نے خصوصی سرکاری دستے ترتیب دے کر حکم دیا کہ چھاپے مارو اور جو دکاندار جتنا کم تولے، اس کے جسم سے اتنا ہی گوشت اتار لو۔
کچھ عرصہ پہلے 1917ء میں جمیل حیدر زیدی مرحوم کا لکھا ہوا ’’بڈولی کا مرثیہ‘‘نظر سے گزرا۔ دریائے جمنا کے کنارے ’’بڈولی‘‘ نام کا یہ قصبہ آج بھی آباد ہے بھارتی ضلع مظفر نگر کی تحصیل کیرانہ کی حدود میں واقع یہ علاقہ بہت سرسبز و شاداب ہے جس کی زیادہ تر آبادی سادات پر مشتمل ہے۔ 1917 میں شدید سیلاب سے متاثر ہو کر زیدی مرحوم نے یہ مرثیہ لکھا جس سے 100 سال پہلے کے معاشرہ کی جھلکیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس شہکار مرثیہ کے چند شعر اس وقت کی اخلاقی حالت بیان کرتے ہیں تو بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کہیں یہ سب کچھ ہمارے ڈی این اے کا حصہ ہی تو نہیں۔ ان اشعار پر غور کیجئے۔
افسوس گناہوں سے یہ توبہ نہیں کرتے
کچھ نیکی و بد کی بھی یہ پرواہ نہیں کرتے
جو اچھے ہیں ان سے بھی یہ اچھا نہیں کرتے
اصلاح تو کیا اپنی بھی اصلاح نہیں کرتے
بغض و حسد و کذب و ریا دل میں مکیں ہے
یوں لوگوں کی آبادی سے ناراض زمیں ہے
اس بستی کو پہلے تو کیا موت نے غارت
لیکن نہ ہوئی لوگوں کو کچھ اس پہ بھی عبرت
کی پیش نمازوں نے بھی ہر چند ہدایت
پر راہ پہ آئے نہ مسلماں کسی صورت
ڈرتے ہیں نبیؐ سے نہ علیؑ سے نہ خدا سے
بس کام ہے بغض و حسد و کذب و ریا سے
ان لوگوں پہ کیوں جوش نہ دریاؤں کو آئیں
کیوں گھیر نہ لیں ان کو دوعالم کی بلائیں
اس بستی میں ایسے بھی ہوئے ہیں ستم ایجاد
کمزور و ضعیفوں کو جنہوں نے کیا برباد
سو ظلم یتیموں پہ ہوئے رانڈوں پہ بیداد
محفوظ علی مر گئے کرتے ہوئے فریاد
جائز نہیں اسلام میں رانڈوں کا ستانا
پر کچھ نہیں لوگوں کی شقاوت کا ٹھکانا
وہ رات کو رضیہ کا مکاں لوٹنے جانا
وہ چوری کا کرنا وہ نقب گھر میں لگانا
قارئین!
یہ مرثیہ کی دیگ کے صرف چند دانے ہیں۔ پورا مرثیہ پڑھنے کے بعد عقل ٹھکانے آ جاتی ہے اور بندہ سوچتا ہے کہ کیا برصغیر میں ہم شروع سے ہی ایسے تھے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کی وجوہات اسباب جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ مرض کی تشخیص کے بغیر تو کوئی مسیحا بھی اس کا علاج نہیں کرسکتا۔ کون اور کتنے فیصد تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا؟ عرب، سنٹرل ایشیا، ایران، افغانستان سے کتنے فیصد تشریف لائے؟ ہندوئوں کے ساتھ صدیاں گزارنے کے کیا اثرات؟ میرا تو دماغ ماؤف ہو رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)