01 جولائی ، 2021
کوئی ایک مشکل ہو تو بتاؤں، اکیلی جان سیاپے ہزار، ایک تو جوبائیڈن صاحب کی کال نہیں آرہی تو دوسری طرف اراکینِ اسمبلی ایک دوسرے کی سر پھٹول کرتے جمہوریت کا جنازہ سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں لیکن انہیں کوئی ایسا قبرستان دکھائی نہیں دیتا جہاں وہ نام نہاد گلی سڑی اس جمہوریت کو دفنا سکیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جو قومی اسمبلی، بلوچستان اسمبلی کے بعد اب سندھ اسمبلی میں پہلے جمہوریت کا جنازہ نکالتے ہیں تو اگلے دن بینڈ باجے کے ساتھ حریم شاہ کے نامعلوم دلہا کے باراتی بن کر سندھ اسمبلی کی دیواریں ایسے پھلانگ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے دلہن کے والدین نے کھانے کا انتظام نہ کیا ہو۔
کوئی ایک مصیبت ہے کہ حریم شاہ نے پوری قوم کی راتوں کی نیند، دن کا چین برباد کر رکھا ہے، وزارتِ خارجہ سے گھومتی پھرتی اب سندھ اسمبلی پر آوارد ہوئی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ ان کے دلہا میاں ایک صوبائی وزیر ہیں، تجسس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا کہ ایسا کون سا خوش نصیب ہے جس نے آنے والے دنوں میں مزید شہرت کی بلندیوں کو چھونا ہے۔
اِدھر اراکینِ سندھ اسمبلی کی حالت یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ٹٹول رہا ہے کہ کہیں حریم شاہ کی سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے ہاتھ کی انگلی میں پہنی انگوٹھی، دلہا کی کلائی پر بندھی رولیکس گھڑی انہی کی تو نہیں۔ پھر یہی اراکین ایک دوسرے سے نظریں چراتے پوچھ رہے ہیں کہ آپ ہی دلہا تو نہیں؟ حریم شاہ کی فی الحال خفیہ شادی نے گھر گھر سیاپا برپا کررکھا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
کچھ تو ایسے مشکوک شوہر نامدار ہیں جو اپنی حقیقی بیویوں کا سامنا کرنے سے بھی کنی کترا رہے ہیں۔ صاحبو! یہ سوشل میڈیا کے کمالات ہی تو ہیں کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اوررنگ بھی چوکھا آئے۔ یہ دنیا آپ کو پیسے کے نام پر کھیل تماشے میں لگا رہی ہے اور آپ ابھی تک ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ ذرا احتیاط سے آگے بڑھئے!
ففتھ جنریشن وار کا زمانہ چل رہا ہے، دشمن چاروں طرف نت نئے انداز میں گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ حملہ آور ہوں۔ نسلوں کی تباہی کے اس منصوبے میں سوشل میڈیا کا کردار سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہ وہی سوشل میڈیا ہے جس کے بارے میں فواد چوہدری صاحب فرماتے رہے ہیں کہ اب پرنٹ میڈیا نہیں سوشل میڈیا کا دور ہے اور موصوف اخبارات کے مسلمہ وجود، حقائق پر مبنی مواد کی اشاعت کی حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔
فیک نیوز کا گڑھ ففتھ جنریشن وار کا خطرناک ترین ہتھیار آج ہماری معاشرتی بنیادیں کھوکھلی کررہا ہے تو کل بات اس سے آگے بھی بڑھ سکتی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
خانِ اعظم کا فحاشی اور جنسی جرائم میں عورت کے لباس پر تبصرہ حقائق پر مبنی ہے لیکن ایسے جرائم کی روک تھام بارے ریاست کیا کردار ادا کررہی ہے کہ جب خانِ اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پاکستان ہائی کمیشن لندن کے ساتھ ملحقہ عمارت کی کھڑکی میں کھڑی ایک عریاں خاتون کی ویڈیو محض اس وضاحت کے لئے شیئر کریں کہ یہ پاکستان ہائی کمیشن کی عمارت نہیں اس سے ملحقہ ریڈ لائٹ ایریا کی ایک عمارت ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس کالعدم سیاسی جماعت کے کارندوں نے یہ وڈیو بناکر شیئر کی، اس کا مقصد تو صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے لیکن شہباز گل کو بھی یہ احتیاط ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے تھی کہ اس ویڈیو کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرکے انہوں نے آخرکون سی خدمت کی؟
کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اس ویڈیو کو پہلے سنسر کیا جاتا یا پھر سرے سے شیئر ہی نہ کیا جاتا اور تحریری وضاحت کر دی جاتی لیکن ایسا کرنے کے بجائے انہوں نے سوچے سمجھے بغیر یہ ویڈیو شیئر کردی۔ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان ہائی کمیشن کی عمارت ایسے علاقے میں کیوں بنائی گئی جو پہلے ہی سے مشکوک اور قابلِ اعتراض سرگرمیوں کا مرکز ہو؟
ہمیں جو صحافتی اقدار، روایات ورثے میں ملی ہیں ان میں اولین یہی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ الفاظ کا چناؤ، سلجھاؤ خوبصورت، باوقار اور تصاویر کے انتخاب میں یہ احتیاط ضرور سامنے رکھی جائے کہ کسی خاتون یا مرد کی کوئی ایسی تصویر شائع نہ ہو جو فحاشی یا عریانی کے زمرے میں آئے۔ یہ ففتھ جنریشن وار ہی تو ہے کہ دشمن آپ کی سماجی اور سیاسی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی بے بنیاد افواہیں پھیلاتا ہے اور پھراسی پر ایسے تبصرے کئے جاتے ہیں کہ انسان انہیں سچ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے۔
حالیہ چند ہفتوں کے دوران دیکھنے میں آیا ہے کہ جب سے افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کا انخلا شروع ہوا ہےاور پاک امریکہ تعلقات میں اچانک سرد مہری پیدا ہوئی ہے بیرون ملک دشمن کے نیٹ ورک پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے انتہائی متحرک ہو گئے ہیں اور ان کا واحد مقصد ہمارےقومی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنانا ہے۔ گزشتہ دنوں بیرون ملک سے ایسی ہی ایک سازشی افواہ پھیلائی گئی جس کا مقصد قومی سلامتی کے اداروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا تھا اور اس سازش کے تمام تر تانے بانے برطانیہ میں موجود پاکستان دشمن نیٹ ورک سے جڑے ہیں۔
اسی حوالے سے آج کل اسرائیلی اخبار کا یہ دعویٰ زیر گردش ہے کہ خانِ اعظم کے ایک معاون خصوصی نے گزشتہ سال نومبر میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ اگرچہ وہ معاونِ خصوصی اور دفتر خارجہ کے ترجمان اس بارے میں تردید کر چکے ہیں اور وضاحت بھی لیکن یہ موضوع بدستور پاکستانی میڈیا میں زورو شور سے زیرِ بحث ہے۔
اپوزیشن رہنما کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر اس موضوع پر سیاسی دکانداری چمکا رہے ہیں اور اسی بنیاد پر عوام اس پروپیگنڈا نیوز کو سچ سمجھ رہے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا پروپیگنڈا کب، کیوں اور کن حالات میں کیا جارہا ہے؟ اپنے اردگرد کے حالات، افغانستان کی صورت حال، بھارت کی پاکستان دشمنی، کمزور معیشت و سیاست، حالات کی سنگینی ظاہر کررہی ہے اور تقاضا کرتی ہے کہ ہم جھوٹ کو سچ نہ سمجھیں۔ یہ سراسر تباہی کا سودا ہے جو ہمیں قبول نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔