پاکستان
Time 02 جولائی ، 2021

وادی کوئٹہ موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کوئٹہ میں بھی نظر آنا شروع ہو چکے ہیں، شہر میں معمول سے کم بارشوں اور کم برف باری کے باعث زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے، اس تبدیلی سے آبی وسائل کی کمی، زراعت ۱ور موسمی شدت جیسے سنگین مسائل جنم لینے لگے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شہر کے بیشتر علاقوں میں قلت آب نے گھمبیر صورتحال اختیار کر لی ہے جہاں شہریوں کو  پینے کے پانی کے حصول کے لیے شدید مشکلات اور  پریشانی کا سامنا ہے، شہر کے کئی وسطی علاقوں میں بعض علاقہ مکینوں کو پانی کے حصول کے لیے دور دور تک پیدل چل کر جانا پڑتا ہے جبکہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد نجی واٹر ٹینکر سے 1500 سے 2000 روپے تک بھاری قیمت پر فی ٹینکر پانی منگوا کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

موسمیاتی اثرات کا ایک سب سے بڑا مسئلہ زیر زمین پانی کی سطح کا ہے جو تیزی سے گر رہی ہے، وجہ بارشوں کی کمی بتایا جاتا ہے، شہر کے بعض علاقوں میں زیر زمین پانی 1000 ہزار فٹ سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔

واٹر اینڈ سیوریج بورڈ حکام کے مطابق شہر میں 450 سے زائد ٹیوب ویلز میں سے کئی بور خشک ہوگئے ہیں جس کے باعث شہریوں کو پانی کی فراہمی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

محکمہ موسمیات کی خشک سالی سے متعلق جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں اس وقت کوئٹہ میں خشک سالی درمیانے درجے کی ہے، اگر  بارشیں نا ہوئیں تو صورتحال مزید شدت اختیار کرسکتا ہے، شہر کے کئی علاقوں میں خشک سالی کے آثار نمایاں ہوتے جارہے ہیں اور کئی علاقوں میں شعبہ زراعت بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے، باغات اور سڑکوں کے اطراف میں موجود کئی درخت پانی نا ملنے سے سوکھ گئے۔

صرف یہی نہیں بلکہ وادی میں بارشوں اور برف باری میں کمی سے شہر کے نواح میں واقع تفریحی مقام ہنہ جھیل خشک ہو چکی ہے، جھیل خشک ہونے سے آبی کھیلوں کی سرگرمیاں معطل ہوئی ہیں، جھیل میں پانی نا ہونے سے آبی مہمان پرندے بھی روٹ کر چلے گئے جبکہ بیشتر سیاحوں نے وہاں کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

کوئٹہ کے ایک 83 سالہ بزرگ شہری بہادر خان نے جیو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 83 سال اسی شہر میں گزارے ہیں اور  یہاں موسم کے تمام رنگ اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

انہوں نے بتایا کہ 50 سال قبل کوئٹہ میں اتنی گرمی نہیں پڑتی تھی، بارشیں اور برف باری زیادہ ہوتی تھی، ہر طرف سبزہ اور درخت ہوتے تھے، موسم کی اب وہ بات نہیں رہی، اب بارش کبھی کبھی ہوتی ہے، برف باری کی صورتحال میں بھی کمی آئی ہے اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، پہلے کبھی ایسا نا تھا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کوئٹہ مختار مگسی نے جیو نیوز کو بتایا کہ ماضی کی نسبت کوئٹہ میں بارشوں کی صورتحال میں کمی آئی ہے، 2020 کے پہلے چھ ماہ کے دوران 154 ملی میٹر بارش اور 27 فٹ برف باری ریکارڈ ہوئی جبکہ رواں سال اب تک صرف 49 ملی میٹر بارش ہوئی اور برف بار ی نہیں ہوئی، کم بارشوں کے اثرات ظاہر ہوتے جا رہے ہیں۔

کم بارشوں اور آبی قلت کے ساتھ ساتھ کوئٹہ شہر اور ملحقہ علاقوں میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جون کے مہینے کے دوران درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا اور اگر ماضی میں دیکھا جائے تو درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ریکارڈ ہو رہا ہے۔

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق موسمیاتی اثرات کی کئی وجوہات ہیں، شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، 1998 کی مردم شماری کے مطابق کوئٹہ کی آبادی 5 لاکھ 65 ہزار نفوس پر مشتمل تھی، 19 سال بعد 2017 کی مردم شماری میں آبادی 22 لاکھ 75 ہزار تک پہنچ گئی ہے یعنی آبادی میں 143فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ وسائل محدود ہیں۔

اس کے علاوہ شہر اور اطراف میں درختوں کی کمی اور کٹائی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی،گاڑیوں کی بہتات سے بھی قدرتی ماحول متاثر ہوا ہے۔

ماحولیاتی شعبے سے وابستہ وائس چانسلر سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کوئٹہ پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ایکو سسٹم کے متاثر ہونے سے ہوا ہے، ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی ضرورت ہے کیونکہ جتنے کم درخت ہونگے اتنی کم بارشیں ہوں گی، درخت جتنے زیادہ ہوں گے، بارشیں اتنی زیادہ ہوں گی۔

آبی ماہرین کہتے ہیں کہ درخت لگانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ آبی وسائل کے تحفظ کے لیے بھی بہتر اور مؤثر منصوبہ بندی کرے، ڈیمز اور  ری چارجنگ پوائنٹس کی تعمیر کے علاوہ دستیاب پانی کے ضیاع کو بھی روکے۔

مزید خبریں :