بلاگ
Time 04 جولائی ، 2021

مردوں کی فرسٹریشن کا علاج

’’اگر عورت مختصر لباس پہن کر گھر سے باہر نکلے گی تو اُس سے ریپ ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے‘‘۔

’’معاشرے میں چونکہ فحاشی اور عریانی بڑھ رہی ہے اِس لئے مرد بےقابو ہو رہے ہیں، انہیں قابو میں رکھنے کے لئے ہمارے ملک میں مغربی ممالک کی طرز پر نہ کوئی نائٹ کلب ہے اور نہ ایسی کوئی جگہ جہاں اِن مردوں کی فرسٹریشن کا مداوا ہو سکے، لہٰذا یہ بڑھتی ہوئی فرسٹریشن ریپ کا سبب بنتی ہے‘‘۔

’’جس معاشرے میں عورتیں اپنے جسم کو ڈھانپے بغیر گھروں سے باہر نکلیں اور جس سوسائٹی میں کھلے عام ناچ گانا ہو وہ معاشرہ لا محالہ بےراہ روی کا شکار ہوگا، یہی بےراہ روی کم سِن بچے بچیوں کے ریپ کا باعث بھی بنتی ہے‘‘۔

’’ایسا نہیں ہے کہ مختصر لباس پہننے والی عورتیں ہی ریپ کا شکار ہوتی ہے، دراصل ایسی عورتوں کا لباس مردوں کے جذبات برانگیختہ کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں اُن پر شیطان غالب آ جاتا ہے اور پھر وہ اپنی ہوس کا نشانہ بےبس اور لاچار عورتوں، بچوں اور بچیوں کو بناتے ہیں، حالانکہ اِن بیچاروں کا نہ لباس نا زیبا ہوتا ہے اور نہ اِن کی حرکتیں فحش ہوتی ہیں‘‘۔

یہ خلاصہ ہے اُن دلائل کا جو ہم آئے روز ریپ کے ضمن میں سنتے ہیں۔ لبرل نقطہ نظر رکھنے والی خواتین اِن دلائل کو Victim Blamingکہتی ہیں جبکہ دائیں بازو کے حامل افراد اِن باتوں کا یہ جواب دیتے ہیں کہ وہ قطعاً عورتوں کو ریپ کا قصور وار نہیں سمجھتے، وہ تو صرف ریپ کی وجوہات بتانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ کوئی احمق اور ذہنی مریض ہی ہوگا جو کم سِن بچے بچیوں کے ریپ کا ذمہ دار خود اُن بچوں کو ہی ٹھہرائے گا۔ 

کسی بھی دلیل کی درستی کو معلوم کرنے کا ایک سادہ سا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اُس دلیل کو پلٹا کر دیکھ لیا جائے کہ پھر اُس مقدمے کی کیا صورت بنتی ہے۔ مثلاً اِس ریپ والی دلیل کو اُلٹا دیں۔ دلیل یہ ہے کہ مرد اپنے ارد گرد پھیلی فحاشی، عریانی اور عورتوں کی بےحیائی کو دیکھ کر جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا اور کسی مجبور اور بےبس عورت یا بچے کا ریپ کر دیتا ہے۔

 اگر یہ دلیل درست ہے تو لا محالہ پھر ہمیں یہ دلیل بھی ماننی پڑے گی کہ فلموں اور ڈراموں میں اپنے بازو کی مچھلیاں دکھاتے ہوئے نوجوان ہیرو، بالشت بھر کی ’’بکنی‘‘ پہن کر نہر میں نہاتے ہوئے لڑکے اور ہوٹل اور کلبوں کے سوئمنگ پول میں کھلے عام جسم کی نمائش کرتے ہوئے مرد، عورتوں کے جذبات برانگیختہ کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں عورتیں بےبس مردوں اور بچوں کا ریپ کر دیتی ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی یہ خبر پڑھی ہے کہ مدرسے کی معلمہ نے دس سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کر دی؟ 

کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی شہر میں لڑکیوں نے نیکر اور جینز پہن کر پھرتے ہوئے کسی لڑکے کو اغوا کر لیا اور اُس کا ریپ کرنے کے بعد قتل کرکے لاش جھاڑیوں میں پھینک دی؟ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ گلی محلوں میں لونڈے لپاڑے رنویر سنگھ اور ورن دھون کی طرح اپنے ’ڈولوں‘ کی سر عام نمائش کرتے پھرتے ہیں جبکہ اسی محلے میں پردہ دار بیبیاں بھی رہتی ہیں، کیا کبھی ہم نے اڑتی ہوئی بھی یہ بات سنی کہ محلے کی تین بیبیوں نے ’ٹینک ٹاپ‘ پہنے ایک لونڈے کو پکڑا اور اُس کا ریپ کر دیا کیونکہ اُس کی بےلباسی کی وجہ سے اِن بیبیوں کا اپنے جذبات پر قابو پانا ممکن نہیں رہا تھا؟

مجھے اندازہ ہے کہ اِس بات کا جواب یہ دیا جائے گا کہ مردوں اور عورتوں کے جذبات میں فرق ہوتا ہے لہٰذا یہ دلیل باطل ہے کہ عورتیں جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی مرد کا ریپ کر سکتی ہیں۔ یہ جواب ہی دراصل مسئلے کی جڑ ہے۔

 ریپ کے اِس پورے مقدمےہم نے فرض کر لیا ہے کہ مرد تو Frustrateاور جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی کا ریپ بھی کر سکتا ہے مگر عورت فرسٹریشن کا شکار نہیں ہو سکتی چاہے اُس کے گرد تمام مرد نکریں پہن کر ہی کیوں نہ گھومتے پھریں کیونکہ اُس کے جذبات مردوں سے مختلف ہیں لہٰذا عورت کے بارے میں ایسا سوچنا ہی مضحکہ خیز ہے۔

 ہمیں یہ سوچ اِس لئے مضحکہ خیز لگتی ہے کیونکہ لاشعور میں مرد عورت کو اپنے سے کمتر مخلوق سمجھتا ہے، اگر مرد اسے اپنے جیسا انسان سمجھے تو عورت کے ریپ کرنے کو کبھی مضحکہ خیز نہ کہے، اگر مرد کا ریپ کرنا مضحکہ خیز بات نہیں تو عورت کا ریپ کرنا کیسے مضحکہ خیز ہوا؟ یہیں سے ایک دوسرا مفروضہ جنم لیتا ہے اور وہ یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریپ جنسی تسکین کا کوئی ذریعہ ہے جبکہ حقیقت میں ریپ دراصل ظلم کے اظہار کا طریقہ ہے، کوئی بھی شخص، چاہے عورت ہو یا مرد، جبر کے زور پر جب یہ کام کرے گا تو وہ ریپ کہلائے گا۔

 یہاں ایک جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے عورتوں کے ریپ کرنے کی خبریں نہیں پڑھیں مگر دوسری طرف یہ خبریں تو روزانہ پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں عورت اپنے آشنا کے ساتھ فرار، تو لامحالہ اس کی وجہ وہی معاشرتی بےراہ روی ہے جو مردوں اور عورتوں کو سرکش اور گمراہ کر رہی ہے۔

 اب اگر یہ جواب درست مان لیا جائے تو ’عورتوں کے مردوں سے مختلف جذبات‘ والا جواب از خود دم توڑ جائے گا کیونکہ کوئی عورت اگر اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہوتی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس کے بھی وہی جذبات ہیں جو کسی مرد کے ہو سکتے ہیں۔ اب رہی اُس کے فرار کی بات تو یہ ریپ نہیں کہلاتا، اسے آپ کوئی دوسرا الزام تو دے سکتے ہیں مگر ریپ نہیں کہہ سکتے بشرطیکہ اُس نے اپنی مرضی کے ساتھ یہ کام کیا ہو۔

مقدمہ کچھ پیچیدہ ہو گیا۔ سادہ بات یہ ہے کہ ریپ کی وجہ یہ نہیں کہ عورتیں بےحجابانہ پھرتی ہیں، اِس سے زیادہ بےحجابانہ عورتیں تو ساحل سمندر پر لیٹی ہوتی ہیں، دنیا میں کوئی اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ ریپ کی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک اِس جرم کا جواز غلط باتوں میں تلاش کر رہے ہیں اور عورت کو ہی اُس کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں، ہمیں نہ صرف یہ مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا بلکہ اِس بھیانک جرم کی سزا کو یقینی بھی بنانا ہوگا۔

 آپ ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی کی سزا پھانسی رکھ دیں اور کسی ایک شخص کو بھی پھانسی نہ ہو تو اُس سے ٹریفک کی خلاف ورزیاں ختم نہیں ہوں گی، البتہ جس دن اشارہ توڑنے والے ہر بندے کو دو ہزار روپے جرمانہ بھرنا پڑا، اُس روز کوئی اشارہ کاٹنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ ریپ کی سزا نافذ کرنے کا بھی یہی طریقہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔