Time 11 جولائی ، 2021
بلاگ

دلیپ کمار میں کیا خاص بات تھی؟

دلیپ کمار کے بارے میں کوئی ایسی بات کرنا ممکن نہیں جو اِس سے پہلے کسی نے نہ کی ہو، سوائے اِس بات کے کہ وہ بہت بڑے اداکار تو تھے مگر یہ کہنا کہ اُن سے بڑا کوئی اداکار آج تک برصغیر میں پیدا نہیں ہوا، شاید مبالغہ آرائی ہو۔ 

کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ دلیپ کمار کو جتنا عظیم اداکار کہا جاتا ہے اتنی غیر معمولی بات اُن میں نہیں ، میرا خیال تھا کہ وہ بہت اعلیٰ پائے کے اداکار ہیں مگر جس طرح اُنہیں صدی کا سب سے بڑا اداکار کہا جاتا ہے وہ کچھ زیادتی ہے ۔ سچی بات ہے کہ میری رائے لا علمی کی بنیاد پر تھی ۔

میں نے اپنے لڑکپن میں دلیپ کمار کی جو پہلی فلم دیکھی وہ ’کرما ‘ تھی اور اسی سے میرے دماغ میں دلیپ کمار کا ایک تاثر بن گیا جو آنے والے کئی برسوں تک قائم رہا حالانکہ کرما نہ اُن کی نمائندہ فلم تھی اور نہ ہی اُس میں دلیپ صاحب اپنے جوبن پر تھے ۔

 کسی بھی اداکار ، آرٹسٹ یا لکھاری کو اُس کے بہترین کام سے پرکھا جاتا ہے ۔ دلیپ کمار کو40 کی دہائی میں عروج ملا اور 60 کی دہائی تک وہ بلا شرکت غیرے برصغیر میں اداکاری کے بے تاج بادشاہ بنے رہے ۔

یہ وہ دور تھا جب لوگوں کی تفریح کے 2 ذرائع تھے ، ریڈیو اور فلم، ٹی وی ابھی نہیں آیا تھا ۔ ریڈیو پر ہفتے میں ایک ڈرامہ نشر ہوتا تھا جسے لوگ بہت شوق سے سنا کرتے تھے اور چونکہ ریڈیو ڈرامے میں اداکاری کو جانچنے کا واحد ذریعہ آواز تھی اِس لئے لوگ اداکار کی آواز کے زیر و بم اور لہجے کے اتار چڑھاؤ کی بنیاد پر ہی اُس کے اچھے برے ہونے کا فیصلہ کرتے تھے ۔ 

دلیپ کمار کی فلمیں جب اُس زمانے میں لگیں تو لوگ اُن کی اداکار ی کے دیوانے ہو گئے اور اِس کی بنیادی وجہ دلیپ کمار کی آواز کا اتار چڑھاؤ تھا ، وہ دھیمے لہجے میں مکالمے بولتے اور ہر ڈائیلاگ کی ادائیگی میں ایک قدرتی پن جھلکتا ،لوگ چونکہ ریڈیو کے ڈرامے سُن کر محض اداکار کی آواز سے اُس کے فن کو پرکھ لیتے تھے سو بہت جلد دلیپ کمار کی بھی اِس اچھوتی خصوصیت نے انہیں اپنے ہمعصر اداکاروں سے ممتا ز کر دیا ۔

 جس روانی ، سادگی اور قدرتی انداز میں دلیپ کمار مکالمے بولتے تھے وہ مسحور کن تھا ۔اِس ضمن میں درجنوں فلموں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر ذاتی طور پر میں دو فلموں کا حوالہ دوں گا ، ایک ’دیودا س ‘اور دوسری ’انداز‘۔ دیوداس میں دلیپ کے مکالمےادا کرنے کا اسٹائل ایسا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ دھیمے لہجے میں اتنا تنوع کیسے ممکن ہے۔

’ انداز‘ میں دلیپ کمار کا سامنا نرگس اور راج کپور سے ہوا۔ پوری فلم میں دلیپ کمار چھائے رہے ، خاص طور سے جب راج کپور کی انٹری ہوتی ہے تو دیکھنے والا یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتا کہ راج کپور بہت ’محنت سے اداکاری ‘ کر رہے ہیں جبکہ دلیپ کمار کا وہی لا پروائی سے قدرتی انداز میں مکالمے بولنے کا اسٹائل ، جس کے آگے راج کپور جیسا سپر اسٹار بھی نہیں ٹھہر سکا۔

ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کوآج یہ بات اچھوتی نہ لگے اور وہ کہیں کہ اِس میں ایسا کون سا کمال تھا جو دلیپ کمار نے کیا ، آخر ایک اچھے اداکار سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ آواز اور لہجے کی مدد سے مکالموں میں جان پیدا کرے ، مردہ لہجے میں تو کوئی بھی ڈائیلاگ نہیں بولتا۔یہ بات اتنی سادہ نہیں۔

 ایک فلم کا سین یاد آ گیا جس میں ایک اداکار کو طویل عرصہ بعد کسی فلم کے آڈیشن کے لئے بلایا جاتا ہے، آڈیشن کے دوران وہ اسی طرح اونچی اور جذباتی آواز میں مکالمے بولتا ہے جیسے وہ اپنے دور میں اوور ایکٹنگ والی فلموں میں بولا کرتا تھا ، آڈیشن لینے والا اسے لاکھ سمجھاتا ہے کہ آج کل ’نیچرل ‘ انداز میں مکالمے بولے جاتے ہیں مگر اُس اداکار کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی ۔

سو جو بات دلیپ کمار نے40 اور 50 کی دہائی میں سمجھ لی اسے سیکھنے کے لئے باقی فلم انڈسٹری کو کئی برس لگے ، 60کی دہائی میں پونا میں فلمی انسٹیٹیوٹ بنایا گیا جہاں اداکاروں اور ہدایتکاروں کی تربیت کی گئی اور اُس کے بعد آرٹ فلموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں نصیر الدین شاہ، سمیتا پاٹل ، شبانہ اعظمی ، اوم پوری وغیرہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے اور پھر ہمیں پتا چلا کہ بغیر اوور ایکٹنگ کیے بھی اداکاری کی جا سکتی ہے۔

 ہماری نسل نے چونکہ اُس دور میں فلمیں دیکھنی شروع کیں جب اِس Method Acting کے ذریعے اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے تو ہمیں دلیپ کمار کی عظمت کا اندازہ نہیں ہو سکا جنہوں نے کسی انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لئے بغیر اداکاری میں وہ قدرتی رنگ بھرا جو اُس وقت بالکل اچھوتی بات تھی ۔

اُس زمانے میں صرف ایک اداکار ایسا تھا جو اِس ڈگر پر چلتا تھا ، موتی لال، اِس نے دیوداس میں چُنی بابو کا کردار کیا تھا،دلیپ صاحب اِس سے بہت متاثر تھے ۔سو آج اگر کوئی کہے کہ دلیپ کمار کی اداکاری میں ایسا کیا کمال تھا ،اسے چاہئے کہ دیو آنند کی اوور ایکٹنگ والی فلمیں دیکھ لے۔

تقسیم ہند کے وقت دلیپ کمار نے اپنے بھائی ناصر خان کو لاہو ر بھیجا تاکہ وہ حالات کا جائز ہ لے کر بتائے کہ کیا اُن کے فلمی کیرئیر کے لئے پاکستان آنا بہتر ہوگا یا ہندوستان میں رہنا۔ ناصر خان نہ صرف لاہور آئے بلکہ یہاں ایک فلم ’تیری یاد ‘ میں کام بھی کیا جسے پاکستان کی پہلی فلم کہا جا تا ہے (اِس فلم کا قصہ خاصا دلچسپ ہے جو پھر کبھی ) ۔

 واپس جا کر انہوں نے دلیپ کمار کو مشورہ دیا کہ بھارت میں فلموں کا مستقبل زیادہ تابناک ہے ۔ دلیپ کمار نے بمبئی میں ہی زندگی گزاری مگر دیگر اداکاروں کے برعکس وہ اپنے نظریات کے اظہار میں لیت و لعل سے کام نہیں لیتے تھے ۔ 1993میں بمبئی فسادات کے وقت اُن سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ بمبئی جل رہا ہے ، آپ کا کیا خیال ہے؟ دلیپ کمار نے جواب دیا ’بمبئی نہیں صرف مسلمانوں کے گھر جل رہے ہیں ۔‘یہ تھے دلیپ کمار جو 98برس کی بھرپور زندگی گزار کر ’نروس 90s‘ کا شکار ہو گئے ۔ ایک عہد تھا جو تمام ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔