Time 12 اگست ، 2021
بلاگ

ریڈ لائن ضروری ہے

افغانستان میں بتدریج حالات اُس نہج کی جانب گامزن ہیں ، مستقل تصادم ایک ایسی کیفیت کو قائم کر دے گا کہ جس میں تحمل سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں غیرموثر ہو جائیں گی مگر یہ معاملہ صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اُس کے خونیں اثرات پاکستان میں بھی شدید بےچینی کا باعث بنیں گے۔

اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِس وقت افغانستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، پاکستان کی جانب سے اس کی پردہ پوشی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ہم اِس معاملے کو سامنے رکھیں کہ افغانستان میں امریکی فضائی کارروائی کہاں سے ہو رہی ہے، امریکی جنگی طیارے کس ملک کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں فوجی کارروائیاں کر رہے ہیں؟ تو اِس سوال کا جواب کتنا تلخ ہو سکتا ہے۔ 

پاکستان کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے کیلئے حقیقی و عملی حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ افغانستان کے حربی معاملات میں نہ تو وہاں پر موجود کسی گروہ کو ہم کسی بھی نوعیت کی امداد فراہم کریں گے اور نہ ہی کسی بھی گروہ کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی، جنگی کارروائیوں میں ہمارا سہولت کاری میں کوئی کردار ہوگا۔ دوبارہ دہرا دوں کہ یہ صرف زبانی کلامی نہ ہو بلکہ حقیقی صورتحال بھی ایسی ہی ہونی چاہئے ورنہ پھر 40برس بعد کوئی کہہ رہا ہوگا کہ ہم اُس وقت غلط راستے پر رواں دواں تھے جس کے بھیانک نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں۔ 

40برس بعد کی دانشمندی کا اگر ابھی سے مظاہرہ کردیا جائے تو ملک و قوم کے لئے نفع بخش ہوگا ورنہ اب تک کی کارکردگی یہ ہے کہ سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوتا ہے، پاکستان کو ہر الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جس کو الزام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا ہے اس ملک کو وہاں پر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع تک فراہم نہیں کیا جاتا۔ ایسی بدترین سفارتی پسپائی کے بعد تو کان پر جوئیں ہی جوئیں رینگ جانی چاہئے تھیں مگر احساس اب بھی یہی دلایا جا رہا ہے کہ ’’ستے ای خیراں‘‘ ہیں جبکہ صورتحال یہاں تک خراب ہو چکی ہے کہ وہاں پر ہمارے دوست ممالک کے سفراء نے ہمارے سفیر یا سفارتی نمائندوں سے ملاقات تک سے اجتناب کیا۔

 اِس نوعیت کی عزت افزائی رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے کافی ہے مگر یہاں ابھی تک مسئلہ یہ ہے کہ امریکی صدر نے فون کیوں نہیں کیا ہے؟ روایت رہی ہے کہ امریکی صدر کو اس کی کامیابی کے بعد دنیا کے اہم ممالک جن میں وطن عزیز بھی شامل ہے، کے حکمران مبارکباد کا فون کرتے اور مختلف امور پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں مگر راقم الحروف اولين فرد تھا کہ جس نے 23مارچ کو ہی تحریر کر دیا تھا کہ وہ یہاں پر کسی سے بات تک کرنے کیلئے تیار نہیں۔ 

ہمارا فون تک سننا گوارا نہیں کر رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمیں اُس نے اِس قابل نہیں سمجھا، اب تو وقت بھی بہت گزر گیا ہے کہ فون کال آنے سے بھی وہ کیفیت بحال نہیں ہو سکتی جو ہو جانی چاہئےتھی۔ اصل مدعا اب یہ ہے کہ امریکی پالیسیاں تشکیل پاتے ہوئے پاکستانی ضروریات کا کتنا خیال رکھا جا رہا ہے، امریکی انتظامیہ کا لب و لہجہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پرویز مشرف کے زمانے کی تاریخ کو دہرا رہی ہے۔

 امریکہ نے تو دو برس سے اپنا باقاعدہ سفیر تک پاکستان میں تعینات نہیں کر رکھا ہے بلکہ اسٹیشن کمانڈر معاملات کو چلا رہا اور اگر وہ ہی معاملات کو چلاتا رہا تو عزائم بالکل واضح ہیں۔ ان حالات میں سی پیک کی صورتحال بھی پتلی ہوتی دکھائی دےرہی ہے۔ 

جب سی پیک اتھارٹی بنائی گئی تو کہا تھا کہ ایسی کوئی اتھارٹی سی پیک کے معاہدے میں شامل نہیں ہے اور چین صرف معاہدے کے مطابق معاملات کو طے کرے گا مگر شایدمعاملات کو سست کرنےکی غرض سے ہی سی پیک اتھارٹی قائم کی گئی تھی اور سی پیک کو سست کر دیا گیا کہ وقت پر مکمل نہ ہو سکے، جب منصوبہ وقت پر مکمل نہیں ہو گا تو اس کی افادیت پر کاری ضرب لگے گی اور اس کے وقت پر مکمل ہونے کے اب کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے جس کے اثرات یہ ہیں کہ گزشتہ سال نومبر سے چینی صدر کا دورۂ پاکستان بار بار مؤخر ہو رہا ہے اور میں نے انہی کالموں میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان کا دورہ نہیں ہو سکے گا اور بدقسمتی سے میری پیش گوئی درست ثابت ہوئی مگر اصل صاحبانِ اقتدار آج بھی اپنے آپ کو ہی سب سے زیادہ دانشمند گمان کر رہے ہیں۔

 پرویز مشرف نے جب نائن الیون کے بعد آنکھیں بند کرکے امریکہ کی حمایت کر ڈالی تو اس وقت صاحب الرائے افراد مشرف کو ٹوک رہے تھے مگر وہ کسی کی سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے طویل عرصے سے نیاز مندی ہے، انہوں نے میرا پتہ مانگا اور اپنی سوانح حیات جو کرنل اشفاق نے مرتب کی ہے تحفہ میں ارسال فرمائی۔

 اس کتاب ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ کا ذکر یہاں بہت مفید ہوگا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں جب پرویز مشرف تین گھنٹے اپنی منطق بیان کرتے رہے تو جنرل اسلم بیگ نے کہا کہ ’’آپ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بدترین فیصلہ ہے جس کی کوئی منطق ہے نہ جواز اور نہ کسی قانون کے تحت اسے درست کہا جا سکتا ہے، اس کے نتائج پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے بہت مہلک ثابت ہوں گے۔

 آپ نے فیصلہ کر لیا ہے تو ضروری ہے کہ متعلقہ لوگوں سے مشورہ کرکے ایک ریڈ لائن مقرر کریں کہ اس کے آگے ہم امریکہ کی حمایت میں نہیں جا سکتے‘‘۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ پرویز مشرف نے امریکی خوشنودی کے لئے ہر لائن عبور کر لی اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے کہ اب بھی قومی اہمیت کے معاملات میں پرویز مشرف کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے، جس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔