28 اگست ، 2021
کراچی کے علاقے کورنگی کی فیکٹری میں آگ کیسے لگی؟ کس کی غفلت تھی؟ ذمے دار کون؟ وجوہات جاننے کیلئے تفتیشی حکام نے فیکٹری سے فرانزک کیلئے نمونے لے لیے، رپورٹ آنے کے بعد تفتیش آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
غیر قانونی فیکٹری کی موجودگی سے آگاہ نہ کرنے پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے تین ملازمین کو معطل کردیا گیا۔
سندھ حکومت نے سانحے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے فی کس دس لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا ہے۔
گزشتہ روز کورنگی فیکٹری میں لگنے والی آگ 17 زندگیاں نگل گئی، فیکٹری میں الارم اور فائر بریگیڈ کی گاڑی میں ڈرائیور ہی نہیں تھا۔ ریسکیو آپریشن میں تاخیر ہوئی، نزدیکی تھانے کی نفری بھی دیر سے پہنچی، فیکٹری بھی غیر قانونی طور پر قائم تھی۔
سرکار کی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جس میں فیکٹری کے دو مالک، منیجر، دو سپروائزر اور چوکیدار نامزد ہیں لیکن اب تک کوئی گرفتاری نہیں ہوسکی ہے۔
کورنگی کی کیمیکل فیکٹری ایک ایسی بند گلی کہی جاسکتی ہے جس میں صرف ایک ہی راستہ تھا، ہنگامی حالت میں بھی یہیں سے نکلا جاسکتا تھا لیکن ایمرجنسی کا پتہ کیسے چلے یہاں تو الارم سسٹم ہی موجود نہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ آگ لگنے کے بعد لوگوں نے چوکیدار سے تالا کھولنے کے لیے کہا، مگر تالا نہیں کھولا گیا۔
تفتیشی ذرائع کے مطابق فائربریگیڈ کو 10 بجکر 8 منٹ پر آتشزدگی کی اطلاع ملی، ایک گاڑی 10 بج کر 10 منٹ پر روانہ ہوئی، دوسری گاڑی ڈرائیور نہ ہونے کے باعث نہ جاسکی۔
10بجکر 24 منٹ پر مزید گاڑیاں لانڈھی اور سٹی فائر اسٹیشن سے روانہ ہوئیں۔ ڈپٹی کمشنر کورنگی کے مطابق فیکٹری میں بیگز تیار کیے جاتے تھے۔ فیکٹری میں موجود سکیورٹی گارڈ کی بھی غفلت سامنے آئی ہے۔
واقعے پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے 3 ملازمین کو معطل کردیا ہے۔ حادثے میں ایس بی سی اے ملازمین کا کردار متعین کرنے کیلئے 3 سینیئر ڈائریکٹرز پر مشتمل کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔
کمیٹی منظور کیے گئے بلڈنگ پلان اور عمارت کا معائنہ کرکے ذمہ داروں کا تعین کرے گی اور 7 دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔