30 اگست ، 2021
کابل ائیرپورٹ پرمبینہ خود کش حملے کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول کرنا خطے کے لیےخطرے کی گھنٹی بن گیا ہے، اس دھماکے کی گونج نہ صرف ایران اور وسط ایشیائی ممالک بلکہ روس اورچین میں بھی سنی گئی ہے۔
چین کے لیے یہ خاص طورپر الارمنگ وجہ ہے کیونکہ چین کی شہ رگ یعنی سنکیانگ کی سرحد افغانستان سے بھی ملتی ہے۔
سنکیانگ 1955میں چین کا خودمختار علاقہ بنا تھا ،سنکیانگ جغرافیائی اور اسٹریٹیجک لحاظ سے جس قدر اہم ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سنکیانگ چین کے مجموعی علاقے کا 17 فیصد حصہ ہے۔
یہ قدرتی ذخائر سے مالامال ہے اور بیجنگ سمیت چین کے مرکزی حصے سے دوسرے سرے پر ہونے کے سبب یہ دارالحکومت کے لیے فطری ڈھال بھی ہے۔
سنکیانگ میں ترکی بولنے والوں اور مسلمانوں کی قابل ذکر تعداد آباد ہے جنہیں یوغر کہا جاتا ہے،اسی حساس علاقے میں اسلامک موومنٹ آف ایسٹرن ترکستان اور اسلامک ترکستان پارٹی بھی فعال ہے جو چین میں دہشتگردی میں ملوث رہی ہے۔
جولائی سن2009 میں ہان اوریوغر کے درمیان فسادات کرائے گئے تھے جن میں200افراد ہلاک کردیے گئے تھے بعد میں ان حملوں کا سلسلہ دیگر علاقوں تک پھیلا دیا گیا تھا۔ ایک حملہ چین کے کن منگ ریلوے اسٹیشن پرکیا گیا تھا جس میں خنجروں سے حملے کر کے 33 افرادکو ہلاک کردیا گیا تھا۔
عشروں سے پسماندہ سکنیانگ میں چین نے بڑے پیمانے پر سرمایہ لگا کر حالات بہتر کرنا شروع کیے ہیں تاکہ اسے اقتصادی مرکز بنایا جائے یہی وجہ ہے کہ چین کے مختلف حصوں سے لوگ یہاں منتقل ہورہے ہیں۔
امریکا کا الزام ہے کہ چین مقامی یوغر آبادی کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھے ہوئے ہے ،لوگوں کی سرویلئنس کی جاتی ہے، انہیں کیمپوں میں رکھا جاتا ہے اورثقافتی اور مذہبی آزادی سے محروم کیا جارہا ہے ۔
تاہم چین کا مؤقف ہے کہ مغربی میڈیا چین کی غلط تصویر پیش کرکے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہاہے۔
چین کے نزدیک سنکیانگ جنوب ایشیا، وسط ایشیا ، مشرق وسطی اور یورپ کے لیے گیٹ وے ہے اور اسی لیے اس علاقے کو ترقی دی جارہی ہے جس سے پورے خطے کی معیشت مضبوط ہوگی ۔
بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سنکیانگ کی سرحدیں منگولیا، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان،افغانستان، پاکستان اور بھارت سے لگتی ہیں یعنی ایک علاقہ8 ملکوں سے چین کو ملانے کا ذریعہ ہے یعنی دوسرے الفاظ میں سونے کی چڑیا ہے۔
ایسے میں افغانستان میں داعش سرگرم ہوئی تو دہشتگردی کی لہر چین تک پہنچنےکا خدشہ بڑھ جائے گا اور چین کے لیے نہ صرف وسط ایشیائی ممالک بلکہ مشرق وسطی اور یورپ تک بیلٹ اینڈ روڈ پھیلانا دشوار ہوجائے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔