Time 31 اگست ، 2021
بلاگ

دنیا بھر کے مرکزی شہروں میں تباہ کن بارشیں اور کراچی شہر کی تیاری

نکاس کا درست نظام نہ ہونے کی وجہ سے متعدد دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے فوٹو: اے ایف پی فائل
نکاس کا درست نظام نہ ہونے کی وجہ سے متعدد دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے فوٹو: اے ایف پی فائل

پاکستان کا شمار  ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہ ان 10 ملکوں میں کیا جاتا ہے جہاں اوسط درجہ حرارت میں متوقع اضافہ، شدید ترین گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) اور  غیر متوقع بارشیں ہوتی ہیں۔ 

 عالمی بینک اور  ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے مرتب کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ (کلائمنٹ رسک کنٹری پروفائل)  میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 3 ارب 80 کروڑ  ڈالر کے نقصان کا سامناہے۔ 

پاکستان کو  اوسط درجہ حرارت میں اضافے کا خطرہ بھی ہے اور  سال 2090 تک پاکستان کا درجہ حرارت 1.3سینٹی گریڈ سے 4.9 سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے، اس اضافے کا تخمینہ 1986 سے 2005 کے 20 سال کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔  عالمی سطح پر  2050 تک درجہ حرارت میں اوسطا 2.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہو سکتا ہے۔

موسمی تبدیلیوں کے اثرات صرف پاکستان تک محدود نہیں ہیں، حال ہی میں سمندری طوفان 'الیسا 'نے نیویارک شہر کو  ایک صدمے میں مبتلا کر دیا ہے، زیر زمین ٹرینوں کے نظام میں پانی بھر گیا  اور گرئے ہوئے درختوں نے ٹریفک جام کر دیا۔  

 دوسری طرف جرمنی میں بارشوں کے نئے ریکارڈ کے ساتھ تباہی آگئی، جرمنی میں ایک لاکھ گھر بجلی سے محروم ہوئے  اور  سیلاب نے شہروں میں تباہی مچاتے ہوئے گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔  اس کے علاوہ  موبائل فونز  بند ہو جانے کی وجہ سے درجنوں افراد لاپتہ ہوئے اور  وہ علاقے جو سطح سمندر سے نیچے تھے  وہاں  بڑی مقدار میں پانی جمع رہا۔

 ان کٹھن حالات میں جدید آلات سے لیس تجربہ کار لوگ بھی ان علاقوں میں زندگی معمول پر  لانے سے قاصر نظر  آئے۔

شہریوں کا  سیلاب کی وجہ سے جو نقصان ہوا ہے وہ ایک مثال ہے کہ دنیا کی جدید ترین اقوام  بھی سیلاب کے سنگین نتائج سے خود کو نہ بچا سکیں، ان ملکوں کو جو چیز ممتاز بناتی ہے وہ پانی کی نکاسی کا نظام  اور  منصوبہ بندی سے ان بحرانوں سے مقابلہ کرنے کی مسلسل تیاری کرتے رہنا ہے۔

 ساتھ ہی ان ملکوں میں اس بات پر  بھی بحث ہو رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں تو ایک عنصر ہے  مگر انسان کے بنائے ہوئے عناصر نے بھی اس تباہی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

لندن میں ہونے والی غیر متوقع بارشوں کے بعد جب رپورٹس یہ بتا رہی تھیں کہ ایک مہینے میں ہونے والی بارش ایک گھنٹے میں برس گئی ہے تو نیشنل فلڈ فورم کی سابقہ چیف ایگزیکٹو میری دھونو نے ایک انٹر ویو میں کہا کہ 'یہ سب ہمارا ہی کیا دھرا ہے، ہم نے ہائیڈ پارک کے مساوی 22 جگہوں پر مٹی بھر کر  وہاں پارکنگ بنا دی ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارا صدیوں پرانا نکاسی آب کا نظام بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ کو سنبھال لے گا۔‘

ملک کی معاشی شہ رگ پر  ایک نظر

گزشتہ سال بارشوں سے کراچی شہر میں بہت تباہی ہوئی اور  پورا شہر ہی تقریباً  رُ ک گیا۔ اگست  2020 میں 484 ملی میٹر بارش ہوئی جس نے گزشتہ 9 دہائیوں میں ہونے والی بارشوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔

 محکمہ موسمیات کے تاریخی ڈیٹا کے مطابق اگست 1930میں کراچی شہر میں 12 گھنٹوں کے دوران 223.5 ملی میٹر  بارش ہوئی تھی، اسی طرح جولائی 1967 میں مسرور بیس پر  211.3ملی لیٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔

جو  بات میری دھونو نے لندن کے بارے میں کہی وہی بات کراچی پر  بھی صادق آتی ہے۔ کراچی میں رہائش اختیار کرنے سے قبل میرا لاہور اور اسلام آباد میں طویل عرصہ اپنے پروفیشنل کیریئر کا گزرا ہے۔

 میں کراچی شہر کو کنکریٹ کے ایک جنگل کی طرح دیکھتاہوں جبکہ باقی دونوں شہروں میں بڑے پیمانے پر ہریالی ہے اور  شہر میں بڑے بڑے باغات موجود ہیں، یہ قدرتی جگہیں شہر کو بارش کے پانی کو جذب کرنے کا ذریعہ فراہم کرتی ہیں جس سے بارش کا پانی قدرتی طور پر نکل جاتا ہے۔

 بد قسمتی سے کراچی میں تیزی سے ہونے و الی تعمیرات اور کنکریٹ کے اسٹرکچرز  نے آبی گزر گاہوں میں رکاوٹ پیدا کی ہے جس سے پانی کا بہاؤ  رکنے کے علاوہ دیگر کئی مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔

 مون سون کی حالیہ بارشوں کے محض 20 ملی میٹر  برسنے سے پنجاب کے شہروں میں سیلابی صورتحال دیکھی جا سکتی ہے مگرکسی حد تک یہ حقیقت ہے کہ یہ شہر مکمل طور  پر  منجمند نہیں ہو گیا اور  یہ یادہانی کرواتا ہے کہ کراچی میں رہتے ہوئے ہم پاکستان کے دیگر شہروں کی منصوبہ بندی سے سیکھ سکتے ہیں۔

بارش کے پانی کی نکاس کا درست نظام نہ ہونے کی وجہ سے شہر کو متعدد دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور شہر میں ایک افراتفری کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

 پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کی آبادی تقریباً 450000نفوس پر مشتمل تھی۔ 1947 سے 1951 کے درمیان مہاجرین کی آمد کے بعد یہ 800000 تک پہنچ گئی۔

 حکومت نے 1958میں گریٹر کراچی سیٹلمنٹ پلان مرتب کیا جس میں کراچی سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر 2  سیٹلائٹ ٹاؤن آباد کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ شہر میں گندے پانی کی صفائی کے پلانٹ لگے مگر اس کے باوجود یومیہ 500 ایم جی ڈی گندا پانی سمندر میں بہایا جا رہا ہے۔ 

گزشتہ چند دہائیوں میں کراچی شہر میں آبادی تیزی سے بڑھی، کچی آبادیوں میں بغیر منصوبہ بندی کے رہائشی کالونیاں آباد کی گئیں جس سے ان علاقوں میں عام شہری سہولتیں فراہم کرنا بھی انتہائی مشکل ہوگیا۔ 

نکاسی آب کا نظام تقریباً بند ہو جانے اور  برساتی نالوں پر  تجاوزات کی وجہ سے صورتحال مذید مخدوش ہوگئی ہے۔

 تیزی سے پھیلتے شہر کے لیے انفرا اسٹرکچر کی فراہمی ایک مشکل جدوجہد بن گئی ہے جس سے شہر ی نظام پر مز ید دباؤ  پڑ  رہا ہے جبکہ موجودہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔

غیر منظم شہری پھیلاؤ کی وجہ سے تجاوزات میں اضافہ ہوا ہے  جبکہ  بارش کے پانی کی نکاسی کے نالوں پر گھروں کو ایسے تعمیر کیا گیا ہے کہ وہ یوٹیلیٹی انفرا اسٹرکچر سے خطرناک حد تک قریب ہیں اور  ان تعمیرات میں انسانی جانوں کے تحفظ کا خیال نہیں رکھا گیا۔ 

گزشتہ سال کی طرح ہونے والی بارشوں میں پورا شہر  ایک مایوسی کی کیفیت میں مبتلا  ہو جاتا ہے، شہری ڈھانچہ بوجھ کی وجہ سے ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اکثر حادثات کی اطلاعات ملتی ہیں۔ 

شہر ی کئی کئی دن تک بجلی سے محروم رہتے ہیں کیونکہ زیریں علاقوں میں بارش کا پانی جمع ہونے سے بجلی کی فراہمی بحال کرنا انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ 

شہر میں پینے کا صاف پانی ایک نایاب شے بن جاتا ہے اور  اتنا مہنگا ملتا ہے کہ متمول افراد بھی پانی خرید نہیں سکتے ہیں۔

پانی کی قلت اور  مہنگا ہونے کی بنیاد پر حال ہی میں کراچی کے ایک معروف صنعت کار نے کاروبار بھی بند کرنے کا اعلان کیا جو ایک بڑے دُکھ کی بات ہے۔ 

اہم سڑکیں اور شاہراہیں زیر آب آنے کی وجہ سے کورنگی کے صنعتی علاقے کا زمینی رابطہ کٹ جاتا ہے جس سے تجارت اور معیشت دونوں کا نقصان ہوتا ہے، ان حالات میں انڈر پاسز میں پانی بھر جاتا ہے۔ 

شہر کی سڑکوں پر جابجا گاڑیوں کی لمبی قطاریں بن جانا معمول کی بات ہے، ایسی صورتحال میں سماجی تنظیمیں اور افراد لوگوں کو بچانے کے لیے میدان عمل میں آتے ہیں  اور  اس مشکل وقت میں شہری یک جان ہوکر ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں۔

لائحہ عمل

یہ کہنا غلط ہوگا کہ کراچی شہر کو جن مسائل کا سامنا  ہے اس کوحل کرنے کی ذمہ د اری کسی ایک تنظیم کی ہے، جیسا کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ پالیسی سازوں اور  آزاد ماہرین کو مل بیٹھ کر فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، مشترکہ اہداف اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

شہری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ خصوصاً ایسے بنیادی ڈھانچے جو کہ غیر متوقع بارشوں کو سنبھال سکیں، یہ بھی عیاں ہے کہ نامناسب انفرا اسٹرکچر کی وجہ سے عوامی زندگی کا معیار متاثر ہو رہا ہے اور لوگوں کو  بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے لوگ مشتعل ہوتے ہیں۔

ان مشکلات پر قابو پانے کے لیے جدید اور مؤثر ڈیزائننگ کی ضرورت ہے۔

 چینی ماہرتعمیرات 'کانگجیان یو' جو کہ اسپنج شہر کے تصور  پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد شہر  میں پانی کے نکاس کا بہترین انتظام اور سیلاب کو روکنے سے متعلق صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔

 ان کی ایجادات بہت ہی سادہ ہیں جس میں سرسبز چھتوں اور دیواروں کے ساتھ ایسے پودوں کی افزائش جو کہ پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں، پانی کو ایک خطرے کے بجائے وہ بارش کے پانی کو شہر کے لیے فائدہ مند شے بناتی ہیں۔

شمالی چین کے شہر ہر بن میں سڑکوں کی تعمیر کے لیے ایسا کنکریٹ استعمال کیا جا رہا ہے جس سے بارش کا پانی جذب ہوکر سڑ ک کے نیچے زیر زمین پانی سے جا ملتا ہے۔

 اس طرح بارش کے پانی کوضائع کرنے کے بجائے جمع کر کے کسی اور  استعمال میں لایا جاسکتا ہے، اس بات کا تصور کریں کہ یہ ٹیکنالوجی شہر کی اہم شاہراہوں شارع فیصل اور آئی آئی چندریگر روڈ  پر اپنائی جائے تویہ کس قدر فائدہ مند ہو سکتی ہے۔

شہر میں برساتی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے زیر زمین ذخائر بنانے کے لیے برساتی باغات اور تالاب بنانے کی ضرورت ہے جہاں پانی کو جمع کیا جاسکے تاکہ بارشوں میں شہری زندگی مکمل طور  پرتھم نہ جائے۔

شہر میں یوٹیلیٹی کمپنیز، مقامی اتھارٹیز اور شعبہ جات کے ماہرین کو لازمی طور  پر ساتھ مل کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا جس سے نئے رجحانات اور معلومات کا تبادلہ ہو سکے۔ 

اس طرح تیار کیے گئے منصوبوں پر کام بھی تیزی سے ہو سکتا ہے کیونکہ یہ منصوبے باہمی اتفاق رائے اور لوگوں کے احساس ملکیت کے تحت تیار کیے گئے ہوں گے۔

کے الیکٹرک کے اقدامات؟

اپنے طور پر کے الیکٹرک نے ڈیڑھ ارب روپے کی سرمایہ کاری سے شہر کے زیریں علاقوں میں موجود اپنے انفرا اسٹرکچر کو اونچا کرنے اور  جدید بنانے کا عمل شروع کیا ہے تاکہ مون سون بارشوں کے دوران بھی شہر کے زیریں علاقوں میں بجلی کی فراہمی جاری رہ سکے۔

 اس کے علاوہ کے الیکٹرک پارکس کی آرائش اور  ان کی دیکھ بھال بھی کر رہی ہے، یہ عمل معاشرے میں سماجی احساس کو اجاگر کرتا ہے بلکہ شہرکی گنجان آبادیوں میں سرسبز جگہیں متعارف کروانے میں چھوٹا سا قدم بھی ہے۔ 

کے الیکٹرک کے دیگر  اقدامات میں بجلی کی فراہمی کے انفرا اسٹرکچر کی بنیادوں کو  اونچا کرنے، واٹر  پروفنگ اور سب اسٹیشنز کی اونچائی میں اضافے اور  پرانے آلات اور  برقی تاروں کی تبدیلی کا عمل بھی کی جاری ہے۔

کے الیکٹرک کا سربلندی پروجیکٹ جو 2020 میں شروع کیا گیا، اس کے ذریعے 10 ارب روپے کی سرمایہ کاری سے بجلی کی فراہمی کے نظام اور  نیٹ ورک کو  بہتر بنایا جا رہا ہے تاکہ محفوظ اور قابلِ بھروسہ بجلی کی ترسیل کو ممکن بنایا جا سکے۔ 

گنجان آبادی والے علاقوں کورنگی، اورنگی، نارتھ کراچی اور  ملیر کی سڑکیں تنگ اور  بغیر منصوبہ بندی کے راستے بنائے گئے ہیں، ان علاقوں میں ائیریل بنڈل کیبل کی تنصیب کی جا رہی ہے۔ 

مقامی آبادی کی شمولیت سے بجلی کی فراہمی میں ہونے والے خسارے کو کم کیا جا رہا ہے اور  بارشوں میں تحفظ کو بڑھانے کے لیے محفوظ ائیر یل بنڈل کیبل کی تنصیب اہم عمل ہے۔ 

صارفین کو کم قیمت کے میٹر فراہم کرنے سے ان کے بجلی کا حصول کو قانونی بنایا گیا ہے، ان اقدامات سے کے الیکٹرک کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری آئی ہے جس سے شہریوں کو قابل بھروسہ طریقے سے بجلی کی فراہمی جاری رہے گی۔

مستقبل پر  ایک نظر

سندھ حکومت نے مالی سال 2021-22کے دوران کراچی شہر میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 8 ارب روپے مختص کیے ہیں جس میں 19 انفرا اسٹرکچر کی ترقیاتی اسکیمیں بھی شامل ہیں۔  سندھ حکومت 13 نئے انفرا اسٹرکچر منصوبے شروع کرے گی جبکہ 6 جاری منصوبوں کی تکمیل کی جائے گی۔

پھیلتے ہوئے شہر کے پیش نظر  یہ اُمید کرنی چاہیے کہ اس شہر کو ٹھوس بنیادوں پر ترقی دی جائے گی مگر شہری مسائل کو حل کرنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے سوچ میں بنیادی تبدیلی۔

کیا کراچی جیسے بڑے شہر کو دوبارہ جدید اور اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے آباد کرنا ممکن ہے؟ ہمیں از سر نو جائزہ لینا ہوگا کہ کون سے مقامات پر موجودہ ڈ یزائن کو بروئے کار لاتے ہوئے لچک پیدا کی جائے اور کہاں پر کوئی انقلابی اقدام اٹھایا جائے۔

 ایک بات واضح ہے کہ ریاستی اور نجی اداروں کو مل کر باہمی تعاون سے شہر میں بسنے والے 2کروڑ  سے زائد عوام کے لیے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

شہر کے ہر حصے میں بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی کے لیے مستقل بنیادوں پر حل تلاش کرنا ہوں گے۔

یہاں یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ مشترکہ ذمہ د اری کے ساتھ ساتھ عوام میں مظبوط شہری احساس بھی اُجاگر کرنا ہوگاجیسا کہ شہر میں بجلی اور  پانی کی چوری کے حوالے سے عادات میں تبدیلی اور تجاوزات قائم کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزائیں دینے کے علاوہ شہر میں صفائی ستھرائی کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر نظام بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

 مختصر یہ کہ تنظیموں، حکومتوں اور عوام کو مشترکہ طور  پر اس شہر کی ملکیت لینا ہوگی جو کہ ملکی معیشت اور آمدنی کا مرکز ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔