17 مئی ، 2025
کیا نریندرا مودی پاکستان پر حملے کی آڑ میں آر ایس ایس کے نظریات اور بی جے پی کی کم ہوتی مقبولیت میں پھر سے نئی روح پھوکنا چاہتا تھا؟
ڈائی سیک کریں، تو دونوں سوالوں کا جواب "ہاں" میں سامنے آتا ہے، تھوڑا پیچھے جائیں تو نریندرا مودی پہلی بار 2014 میں بھارتی وزیراعظم بنا، نسل پرست پالیسیوں کے باعث اس کی مقبولیت بہت جلد ملک کی ہندو اکثریت میں سر چڑھ کر بولنے لگی، ہندوتوا کے پرچار، شہروں کے نام کی تبدیلی، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور ایسے ہی دیگر اقدامات کے باعث2019 کے جنرل الیکشن میں مودی پہلے سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب رہا۔
غیر معمولی مقبولیت کے سبب، جلد ہی امبانی اور اڈانی سمیت ملک کے نمایاں کاروباری اور صنعتی گروپس نے مودی کو اپنے حصار میں لے لیا، اس کے بعد اقتدار پر مودی کی گرفت مستحکم کرنے اور اس کی شہرت کو چار چاند لگانے کیلئے ملک کا90 فیصد میڈیا خریدا گیا تاکہ یہ تاثر عام کیا جاسکے کہ اب بھارت میں مودی کے پائے کا کوئی لیڈر نہیں۔
انڈین میڈیا پر دن رات چلنے والے اس پروپیگنڈے کو اگر کسی نے سب سے بڑی سچائی مانا تو وہ خود نریندرا مودی تھا، اسے لگنے لگا کہ وہ گاندھی، نہرو یا اندرا گاندھی کی طرح زمینی نیتا نہیں بلکہ آسمان سے اُترا ہوا کوئی اوتار ہے، جسے بھگوان نے کسی خاص اور عظیم مقصد کے تحت دھرتی پر بھیجا ہے اور یہ بھِی کہ گاندھی اور نہرو تو ہندوستان کی تقسیم کا باعث بنے لیکن یہ نریندرا مودی ہے جو اکھنڈ بھارت کا سپنا سچ کرکے دِکھائے گا، یہ خود فریبی کا وہ مرض ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد ہٹلر سے لے کر مودی تک، کئی حکمرانوں کو شہرت کی بلندیوں سے نیچے اُتار کر، بدنامی کی پستیوں میں پھینک چکا ہے۔
اس کھیل کا دوسرا مرکزی کردار وہ سرمایہ دار ہیں جنہوں نے پہلے ایک معمولی نیتا کو غیر معمولی ابھینیتا بنایا پھر یہ باور کرایا کہ پاور پولیٹکس میں صرف بیچنا اہم نہیں ہوتا، خریدنے کی طاقت بھی ہونی چاہئے۔
یوں اڈانی اور امبانی سمیت مودی سے گٹھ جوڑ کرنے والے تمام کاروباری گروپس کیلئے اکنامک لبرلائزیشن، فارن انویسٹمنٹ اور جدید انفرا اسٹرکچر کے نام پر مال بنانے کے دروازے کھول دیئے گئے، آئی ٹی، ٹیلی کام، موٹر ویز، پبلک ٹرانسپورٹ، بندرگاہوں کی تعمیر اور رفال طیاروں کی خریداری سمیت بہت سے ترقیاتی، تجارتی اور دفاعی سودے ہیں، جن میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اندھی کرپشن کا الزام لگاتی آرہی ہیں، بقول راہول گاندھی، اڈانی بھارت کا وہ جادو ہے جسے مودی جی کے اقتدار میں آنے سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا، مگر اب ساری دنیا جانتی ہے۔
اقتدار کے دوسرے دور میں عوامی پذیرائی اتنی زیادہ تھی کہ مودی ہر مخالف آواز کو دبانے میں کامیاب رہا لیکن 2024 کا الیکشن قریب آیا تو ہوا کا رُخ بدلنے لگا، مثلاً جواہر لعل نہرو، جس ایتھنک ڈائیورسٹی کو ہندوستان کی طاقت بنانا چاہتے تھے، مودی نے ہندوتوا کے جبری نفاذ کے باعث اُسے برباد کردیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، وقف املاک اور زرعی شعبے میں متنازع قانون سازی سمیت ایسی کئی پالیسیز ہیں، جن کے ذریعے بھارت کی اقلیتوں کو مسلسل دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نفرت بیچ کر اقتدار خریدنے کا حربہ کچھ عرصے تک تو کارگر ہوسکتا ہے مگر داخلی ہنگامہ آرائی ایک دھائی تک پھیل جائے تو "سرحدوں پر کہیں تناو ہے کیا؟؟ کچھ پتا تو کرو، چناؤہے کیا؟" جیسی طنزیہ آوازیں اُٹھنے لگتی ہیں، سو یہ آوازیں اُٹھیں اور پوری طاقت سے اُٹھیں، آزاد صحافتی حلقوں اور انڈین سول سوسائٹی نے برملا کہنا شروع کردیا کہ کہ مودی نے مذہبی تفریق اور نسل پرستی پر مبنی سیاست کے باعث ملک کی فیڈریشن کو کمزور کیا ہے، یہی نہیں بلکہ میرٹ کے برخلاف، من پسند تعیناتیوں سے ریاستی ادارے بھی اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔
دوسری طرف بھارت میں بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری صرف اقلیتوں کا نہیں بلکہ ہندو اکثریت کیلئے بھی وہ مسئلہ ہے جس کے ازالے کیلئے کھوکھلے وعدے اور جذبات سے کھیلنے والی تقریریں کافی نہیں۔
انڈیا میں کرپشن اور بیڈ گورننس کے اثرات صاف ہیں مگر خاموش اور خوفزدہ اکثریت جانتی تھی کہ میڈیا سے لے کر عدلیہ، اور بیورو کریسی سے لے کر پولیس تک، بیشتر ادارے مودی کی مٹھی میں ہیں اور اب ووٹ ہی تبدیلی کا واحد ذریعہ بچا ہے۔
قبضہ اتنا بھرپور ہو، تو فیصلہ کن تبدیلی ایک ہی ہلے میں نہیں آتی، بھارتی عوام کو یہ کڑوا سچ2024 کے الیکشن میں بھی پینا پڑا, مودی انتخابی دنگل میں "اب کی بار چار سو پار" کے دعوے کے ساتھ کودا تھا مگر نتائج آئے تو بی جے پی لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے صرف 240 سیٹیں حاصل کرپائی۔
سادہ اکثریت کیلئے کم سے کم 272 سیٹیں درکار تھیں، اس لئے مودی اینڈ کمپنی کو حکومت بنانے کیلئے نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کو ساتھ ملانا پڑا، اس الیکشن کے نتیجے میں انڈیا کا حکومتی سیٹ بھلے ہی تبدیل نہ ہوا ہو، مگر یہ صاف ہوگیا تھا کہ مودی اب بھارتی سیاست کا حرفِ آخر نہیں رہا اور مستقبل میں اسے اتحادیوں کی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔
حد تو یہ ہے کہ ایودھیا، جہاں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنا کر بہت بڑا تیر مارا گیا تھا، وہاں بھِی مودی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا، اس پر سیاسیات کے انڈین ماہر برتاب بھانو مہتا کا یہ تبصرہ مقامی اور عالمی میڈیا کی زینت بنا کہ "مودی اب دیوتا سمان نہیں رہے، آج وہ صرف ایک عام سیاستدان ہیں، جو پہلے سے کافی چھوٹے ہوگئے ہیں۔"
طویل اقتدار شی جن پنگ، اردوان اور مہاتیر محمد جیسے بڑے آدمیوں کو ملے تو اس کا نتیجہ امن اور ترقی کی صورت میں نکلتا ہے مگر نریندرا مودی کا معاملہ الگ ہے۔ وہ اقتدار کیلئے دنیا کے جانے مانے اصولوں کے بجائے، آر ایس ایس کے انتہا پسند ایجنڈے پر کاربند ہے، تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرکے وزارتِ اعلیٰ سے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچااور اقتدار کے پہلے دن سے آج تک ، امن اور ترقی کے بجائے، نفرت اور تقسیم کے فارمولے پر عمل پیرا ہے۔
سامنے کا سچ یہ ہے کہ مودی کا یہ سودا اب بھارت کی اکثریت بھی خریدنے پر تیار نہیں۔ بی جے پی کی چنڈال چوکڑی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات میں اس کیلئے اگلا الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہوگا اس لئے اسے کسی ایسے سنسنی خیز ڈرامے کی ضرورت تھی، جو سارے مسائل سے توجہ ہٹادے اور سب کو مجبور کردے کہ وہ اپنی بقا کیلئے صرف اور صرف مودی کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوجائیں۔
پہلگام کا فالز فلیگ آپریشن یقینی طور پر اسی منصوبہ بندی کی کڑی ہے، سوچ یہ رہی ہوگی کہ اس کی بنیاد پر پہلے امریکا کو اعتماد میں لے کر پاکستان سے محدود پیمانے پر ایک روایتی جنگ کی جائے گی، گودی میڈیا15، 20 دن تک مودی مودی کا ڈھول پیٹے گا، اپوزیشن جماعتیں منہ دیکھتی رہ جائیں گی اور اگلے الیکشن میں مودی ایک بار پھر فتح کا دیوتا بن کر "چار سو پار" کرجائے گا۔
لیکن اس کے بعد پاک افواج نے جو کچھ کیا، وہ ہم شاید بھول کر آگے بڑھ جائیں، مگر بھارت ہمیشہ مُڑ مُڑ کے پیچھے دیکھتا رہے گا اور ہمیشہ یاد رکھے گا۔
بھارت کو غفلت اور نفرت کی نیند سے جگانے کیلئے آخری بات یہی ہےکہ اب طاقت کا مرکز، مغرب کی مٹھی سے نکل کر، مشرق کی گود میں گرنے والا ہے، اس نئے اتحاد کو، کون لیڈ کرے گا؟
یہ اوپن سیکرٹ پوری دنیا جانتی ہے، اہم بات یہ ہے کہ پاور شفٹنگ کے اس نازک دوراہے پر انڈیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس کا وزن کس پلڑے میں ہونا چاہئے ، یہ اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ دور میں آگے بڑھنے، یا پیچھے رہ جانے کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ آپ کی نسل یا مذہب کیا ہے بلکہ اس پر کہ آپ کس کے ساتھ اور کس کے خلاف ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔