07 ستمبر ، 2021
پاکستان کی مشکلات میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی تاہم بین الاقوامی معاشی اور سماجی ادارے اور ان کے اعداد و شمار پاکستان کے بارے میں خوش گمان نظر آ رہے ہیں۔ اندرون ملک مگر عوام کی سوچ اور فکر میں یک سوئی کا فقدان ہے۔
بھارت کے حکمران آپ سے شروع دِن سے بغض اور کینہ رکھتے ہیں۔ ایران کو آپ کے دوست پسند نہیں۔ چین کو حیرانی ہے کہ آپ لوگ اپنا کچھ بھی جلد بدلنے کو تیار نہیں اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اعتماد کا فقدان ہے۔ طالبان نے بظاہر افغانستان کو فتح کر رکھا ہے۔ جس طرح سے ایک زمانہ میں امریکہ نے فتح کر رکھا تھا۔ طالبان اب کی بار کافی بدلے بدلے لگ رہے ہیں اور وہ امریکہ سے کوئی پنگا لینے کو مناسب خیال نہیں کررہے۔
دوسری طرف امریکہ بہادر جو ہمارا پرانا مہربان ہے، نیٹو سمیت افغانستان کو پرانا کمبل خیال کرتے ہوئے چھوڑ کر فرار ہوگیا۔امریکہ نے افغانستان میں جتنے جانثار پالے تھے وہ سب طالبان سے خوف زدہ ہیں۔ امریکہ کو اپنے اثاثوں کی فکر نہیں ،وہ اپنے ہمدردوں کو پاکستان کے راستے محفوظ کر رہا ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کو آج کی جمہوریت سے نظر آ رہا ہے۔ اس جمہوریت نے پورے معاشرہ میں ایک ایسی بیماری پھیلا دی ہے جس کی دوا تو ابھی دستیاب نہیں ہوئی مگر کچھ ہے ضرور جس کی دنیا بھر کے تحقیق کرنے والے پردہ داری کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہماری جمہوریت بھی ایسی ہے کہ عوام کو اس پر بالکل یقین نہیں۔
بات سچ ہے مگر ہے رسوائی کی کہ اس وقت میڈیا نظر انداز ہو رہا ہے۔ میڈیا کے حقوق کو سرکار نظر انداز کر رہی ہے اور ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کے باعث میڈیا بے کس ہوسکتا ہے۔ یہ بھی اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ جمہوریت ہے اور جمہوریت پسند لوگ ایک بڑے کمرے میں اکٹھے ہو کر میڈیا کے خلاف کچھ بھی کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں اور وہ کمرہ جو اسمبلی کہلاتا ہے وہاں پر میڈیا کے خلاف قانون سازی ہوسکتی ہے ورنہ سرکار اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جمہوری لوگوں کا ہتھیار استعمال کرکے میڈیا کو بے حیثیت بھی کر سکتی ہے۔
بہت ہی شور و غل ہے کہ ایک میڈیا اتھارٹی بنائی جا رہی ہے اور کمال یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن اور سیاسی اشرافیہ بھی میڈیا کے ساتھ ہے اور اس کی وجہ ہے کہ یہ میڈیا والے جمہوریت کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی مرضی کی خبریں چھاپ دیتے ہیں ۔
ہمارے ملک کو جمہوریت نے دیا ہی کیا ہے اور ملک کتنا خود مختار اور آزاد ہوا؟اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ ہمارے بہت سے دوست ملک جن میں صفِ اول میں امریکہ اور برطانیہ آتے ہیں، بہت ہی جمہوریت پسند ہیں۔ برطانیہ میں جمہوریت صرف ملکہ کے ہاں جوابدہ ہے ورنہ عوام کو فکر نہیں، اس لئے نہیں ہے کہ ملک میں قانون ہے اور انصاف کا نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔
یہ الگ بات ہے جمہوریت دوست لوگ برطانیہ میں ملکی مفادات کے تناظر میں جمہوریت کے اصولوں کو پسند نہیں کرتے، ملکی دفاع اور معیشت کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ جمہور نہیں کرسکتے اور اختلاف کی صورت میں مفاد دیکھا جاتا ہے۔ مفاد کے کارکن جمہوریت کے دعوے دار برطانیہ والے مفرور ملزموں کو اپنے مفاد میں ملک بدر کرنے کو تیار نہیں۔ ہاں ان کے ہاں کبھی کسی کا استحقاق مجروح نہیں ہوتا اور ہمارے ہاں جمہوریت پسند اشرافیہ کا استحقاق ہی سب سے بڑا مسئلہ اور معاملہ ہے۔
اب ذکر ہونے جا رہا ہے امریکہ بہادر کا جو ہمارا بہت ہی خیال رکھتا تھا اب کچھ عرصہ سے وہ ناراض ناراض سا ہے۔ امریکہ ہماری عسکری انتظامیہ کے بھی بہت قریب ہے اور عسکری انتظامیہ نے کئی دفعہ امریکہ کوباور کروایا ہے کہ وہ خطہ کی صورت حال میں سیاست نہ کرے۔ اب ہمارے ہاں جمہوریت ہے اور عمران خان وزیر اعظم ہیں۔ عمران خان نے کوشش کی ہے کہ سیاسی اشرافیہ کے ساتھ تنظیم سازی ہوسکے مگر سیاسی اشرافیہ کے دو چار بڑے لوگ جن پر احتساب عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں، وہ اب نئے الیکشن کے دعوے دار ہیں مگر اس کے لئے وہ جمہوریت والا راستہ مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔
ہماری سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ان کے خصوصی تعلقات ہیں۔امریکہ کو ہمارا دوست چین پسند نہیں اس لئے کہ وہاں جمہوریت نہیں اور اس کو ڈر ہے کہ چین جیسا نظام پاکستان کوپسند نہ آ جائے مگر امریکہ بہادر فکر نہ کرے، جمہور کی آواز کون سنتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تضاد کی بنیادی وجہ جمہوریت ہے۔ ملک میں بڑی تبدیلیوں کی گنجائش اور ضرورت ہے۔سی پیک کا منصوبہ پاکستان کو بہتر مستقبل دے گا اور ہوسکتا ہے چینی طرز حکومت کے لئے کچھ لوگ جو چین کو لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ عوام کے سا منے آ جائیں ۔ عمران خان کو روحانی حلقے نے طاقت ور بنایا ہے، باتیں اچھی ہیں مگر ان پر یقین نہیں آتا اور اس کی وجہ بھی جمہوریت پسند ہونا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔