اقوامِ متحدہ، کشمیر اور صدر اردوان

دنیا میں امن کے قیام کے لئے جمعیت اقوام جیسے ادارے کی ناکامی کے بعد امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں 25 اپریل 1945سے 26 جون 1945 تک 50 ممالک کی کانفرنس کے دوران 24 جون 1945 کو اقوام متحدہ کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا جس کا مقصددنیا میں جنگوں کا خاتمہ ، انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ، انسانی اقدار کی قدرو منزلت ، خواتین اور مردوں کے مساوی حقوق ، چھوٹی اور بڑی تمام اقوام کے حقوق، بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر مشترکہ اقدامات کرنا تھےلیکن بدقسمتی سے اقوام متحدہ آج تک اپنے ان مقاصد کو حاصل کرنے میں جمعیت اقوام کی طرح ناکام چلی آرہی ہے۔

 اس ادارے کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ پانچ ممالک کو ویٹو پاور دینا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان گزشتہ کئی برس سے اقوام متحدہ کے ڈھانچے میں تبدیلی پر زور دیتے چلے آرہے ہیں۔

 وہ ہمیشہ برملا اور واشگاف الفاظ میں’’ دنیا پانچ سے بڑھ کرہے‘‘ (یعنی دنیا کی قسمت پانچ ممالک کے ہاتھوں میں نہیں ہونی چاہئے)کہتے ہیں ۔صدر اردوان اقوام متحدہ کواس وجہ سے بھی مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے چلے آرہے ہیں کہ اس ادارے نے آج تک مسلمانوں کے کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی ۔ 

یہ پانچ ممالک دنیا کی دیگر تمام اقوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ فیصلے زیادہ تر مسلمان اقوام ہی کے خلاف کیے جاتے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے عالمِ عیسائیت کے تمام مسائل کو حل کرنے کی جانب خصوصی توجہ دی ہے اور ان کے مسائل حل کیے جن میں نمیبیا کی آزادی، سوڈان کی تقسیم اور انڈونیشیا کے مشرقی تیمور کی آزادی جیسے معاملات شامل ہیں لیکن مسئلہ فلسطین، مسئلہ قبرص اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے بارے میں مسلمانوں کے کسی بھی مطالبے پرآج تک کان نہیں دھرے۔

عالمِ اسلام کے عظیم رہنماترک صدر اردوان مسلمانوں کے مسائل پر اکثر وبیشتر آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مدد کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ انہوں نے 2005 میں آزاد کشمیر اور پاکستان میں آنے والے شدید زلزلے کے دوران جس طرح کشمیریوں اور پاکستان کی مدد کی تھی اسے بھلا کون فراموش کرسکتا ہے؟

 ترک صدر رجب طیب اردوان کا دل کشمیریوں کے لئے ہمیشہ تڑپتا رہتا ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب ہمیشہ بھارت سمیت تمام ممالک کی توجہ مبذول کرواتے رہے ہیں۔

انہوں نے فروری 2020 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر ترکی کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو پاکستان کے لئے۔انہوں نے بھارت کی جانب سے کشمیر کے اسٹیٹس کو بدلنے کی کوششوں پر کہا تھا کہ کشمیری بھائیوں کو حالیہ بھارتی اقدامات سے بہت نقصان پہنچا ہےجبکہ ترکی مسئلہ کشمیر کو امن و انصاف کے ذریعے حل کرنے کے لئے اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض ادا کرتا رہے گا۔

 انہوں نے گزشتہ سال کی طرح امسال بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کی توجہ ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرواتے ہوئے جس جوش و جذبے سے یہ مسئلہ اٹھایا، اس نے تمام کشمیریوں اور پاکستانیوں کو ایک بار پھر اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ مسئلہ گزشتہ 75 برسوں سے حل طلب ہے اسے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے کئی ایک اسلامی ممالک کے رہنمائوں نے خطاب کیا لیکن پاکستان اور ترکی کے علاوہ کسی بھی ملک یا اس کے رہنما کو مسئلہ کشمیر پر آواز بلند کرنے کی توفیق نہ ہوئی ۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر تمام اسلامی ممالک مشترکہ طور پر عالمِ اسلام کے ان مسائل پر آواز بلند کریں تو شاید اپنے مقاصد کچھ حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر ، مسئلہ فلسطین اور اور مسئلہ قبرص کے حل کے لئے صدرجب طیب اردوان کی قیادت میں عالمِ اسلام کے اہم اور نڈر رہنمائوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ان تمام مسائل کے حل کے لئے ایک تحریک کا آغاز کیا جائے ۔

 ترک صدر جنہیں عالمِ اسلام کا نڈر رہنما تصور کیا جاتا ہے اور جو عالمی رہنماؤ ں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنےکے فن سے آگاہ ہیں، کشمیریوں کے لئے نجات دہندہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ کشمیر کے عوام کو چاہئے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ترکی ، ترک عوام اور ترک صدر رجب طیب اردوان کو بھی متحرک کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کروانے کی تحریک کا آغاز کریں کیونکہ کشمیری رہنما اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کی سکت کھو چکے ہیں اور اب دنیا کی توجہ اگر مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کروانی ہے تو اس سلسلے میں ترک صدر رجب طیب اردوان نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

 انہوں نے جس طرح مسئلہ فلسطین کے بارے میں عرب رہنماؤں سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے اور عرب باشندوں کی حمایت حاصل کی ہے اس کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہےکہ اگر دنیا کو کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے آگاہ کرنا ہے تو اس سلسلے میں صدر اردوان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ 

اسی لئے اب کشمیریوں کو چاہئے کہ وہ صدر اردوان سے قریبی رابطہ قائم کریں اور حکومتِ پاکستان پر بھی دباؤ ڈالیں کہ پاکستان اور ترکی مل کر مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں کوئی ٹھوس اقدامات کریں کیونکہ اب بھی اگرکچھ نہ کیاگیا تو پھر اس مسئلے کو آئندہ حل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔