بلاگ
Time 05 اکتوبر ، 2021

جرمن انتخابات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین

وطنِ عزیز کے انتخابی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے آج کل خوب شورو غوغا ہے، اب تک تو یہ ہدف باآسانی حاصل کر لینا چاہئے تھا۔

جرمنی میں بھی جمہوریت اپنی موجودہ شکل میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے موجود ہے جبکہ جرمنی کے ٹکڑے بھی ہو گئے تھے۔ یہ وہی وقت ہے جب ہم ووٹ کی طاقت سے برطانوی ہند میں قیام پاکستان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہم مگراس سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ منظرنامہ اس لیے ذہن میں آیا کہ جرمنی میں حال ہی میں انتخابات کا عمل وقوع پذیر ہوا ہے اور حکمران جماعت ہویا حزب اختلاف کسی نے بھی انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کا الزام عائد نہیں کیا بلکہ نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کیا ہے کہ یہ عوامی رائے ہے۔

میری جرمنی کے سیاسی نظام میں ہمیشہ گہری دلچسپی رہی ہے۔ جرمنی کی اکیڈمی آف لیڈرشپ گنبرز برگ میں زیر تعلیم بھی رہا جب کہ کسی یورپی ملک کا پہلا سرکاری دورہ بھی آج سے 20 برس قبل جرمنی کا ہی کیا تھا۔ جب اینجلا مرکل پہلی بار چانسلر منتخب ہوئی تھیں، ان انتخابات کے دوران بھی بطور مبصر وہاںموجود ہونا تھا مگر کورونا نے فی الحال دنیا کا چہرہ ہی بدل دیا ہے لہٰذا آن لائن ہی اس حوالے سے ہونے والے سیمینار میں شرکت کر سکا۔ بہرحال جرمنی میں وہاں کی آبادی بتدریج زبردست سیاسی شعور کی حامل ہوتی چلی گئی۔

سامنے آنے والے معاملات کی بنیاد پرہی عوام انتخابات میں کوئی فیصلہ صادر کرتے ہیں جیسا کہ عرض کیا کورونا نے دنیا کا چہرہ ہی بدل دیا تو جرمنی میں سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملے گا، یہ پیش گوئی گزشتہ کئی مہینوں سے کی جا رہی تھی۔ کورونا نے جب اودھم مچایا تو جرمنی بھی اس کی زبردست لپیٹ میں آگیا، انجیلا مرکل حکومت نے اس حوالے سے اقدامات کرنا شروع کردیے مگر اسی دوران ماسک ڈیل اسکینڈل سامنے آیا جس میں حکمران جماعت کرسچین ڈیموکریٹس سے وابستہ سیاستدانوں نے اس متنا زعہ ڈیل سے بہت زیادہ مالی فائدہ حاصل کیا۔

ایک تو دنیا کورونا سے لڑرہی تھی تو جرمن عوام کے سامنے یہ اسکینڈل آگیا، اس اسکینڈل کےسامنے آتے ہی رائے عامہ، بالخصوص نوجوانوں میں زبردست سیاسی ردعمل دیکھنے میں آیا اور جرمنی کی سیاست پر نظر رکھنے والے افراد یہ توقع کرنے لگے کہ حکمران جماعت سی ڈی یو کو اگلے انتخابات میں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو یہ بات درست بھی ثابت ہوگئی کیونکہ حکمران جماعت ماضی کے مقابلے میں 25 فیصد کم ووٹحاصل کر سکی اور اس 25 فیصد کی کمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوشل ڈیموکریٹس جو چند ماہ قبل تک اتنے متحرک محسوس نہیں ہو رہے تھے وہ بہت بہتر انتخابی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔

اس کی وجہ یہ بھی بنی کہ ان کے لیڈر اولف شلز کی ماضی میں بطور وزیر خزانہ ویسے ہی ساکھ بہت اچھی رہی ہے اور انتخابات سے قبل ان کے حوالے سے یہ تصور بھی مضبوط ہوا کہ وہ معاملات کو جارحانہ انداز میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس سب کے باوجود وہاں پر کوئی بھی جماعت تنہا حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہوسکے گی کیونکہ انتخابی نتیجہ ملا جلا ہے۔

چھوٹی جماعتوں گرین پارٹی اور ایف ڈی پی نے اپنی جگہ بنا لی ہے مگر پالیسی سازی میں شدید تقسیم کا امکان موجود ہے۔ ابتدا میں عرض کیا کہ جرمنی جب ہٹلر کے بعد اپنا سیاسی نظام بنا رہا تھا تو ہم اس وقت سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کی وجہ سے برصغیر پر نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ دیکھ رہے تھے کہ جس میں ووٹ کو عزت حاصل تھی مگر جرمنی میں تو آج صورت حال یہی ہے کہ وہاں حکمران جماعت جیت جائے یا ہار جائے، انتخابی نظام کی ساکھ متاثر نہیں ہوتی جبکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے۔

الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا شوشہ شاید بھی اسی لئے چھوڑا گیا ہے کہ بس سوفٹ ویر سے چھیڑ خانی کرو اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کر لو۔ مسئلہ انتخابی نظام کے سقم کا نہیں بلکہ نیتوں کا ہےور نہ اگر ادارے درست کام کریں تو برطانوی عدالت جیسے فیصلے آتے ہیں کہ جیسے ابھی شہباز شریف کے حوالے سے آیا اور اگر دباؤ میں ہو تو ارشد ملک مرحوم کی طرح کے فیصلے آتے ہے کہ جن پرجج خود بھی شرمندہ ہوتے ہیں، نیتیں درست کیجئے، سب کچھ درست ہو جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔