21 اکتوبر ، 2021
امریکا کے مطابق افغانستان میں اُس کی جنگ القاعدہ، طالبان اور داعش سے تھی مگر افغان شہری اس بات کو نہیں مانتے،کہتے ہیں کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ عام شہری مارے گئے۔
اچانک کیے گئے فضائی حملے اور گولہ باری سے جو فوری مرا، وہ تو مرگیا لیکن جو زندہ بچے وہ اپنے جوان بچوں اور گھر چلانے والوں کی یاد میں ہر روز مرتے ہیں۔
درخت سے پتوں کا گرنا بتاتا ہے کہ افغانستان میں آج کل خزاں کا موسم ہے، چند دن بعد یہ خزاں تو ڈھل جائے گی مگر یہاں بے شمار خاندان ایسے ہیں، جن کی خزاں ’سدا بہار‘ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی کیونکہ جنگ نے ان کی لہلہاتی شاخیں توڑ ڈالیں اور ہرے بھرے پتے جلا کر رکھ دیے۔
بدخشاں کا ریٹائرڈ پولیس آفیسر عبدالصبور ایسے ہی متاثرین میں شامل ہے، طالبان کے قبضے سے 3 ماہ قبل امریکی بمباری میں اس کے دو بیٹے مارے گئے۔
طالبان کے غلبے سے 3 ماہ پہلے صوبہ بدخشاں کے ضلع الشہدا میں افغان حکومت اور امریکی فوج نے طالبان کے خلاف کارروائی کے دوران طیاروں سے بم برسائے، عین بکرا عید سے ایک دن پہلے ہوئی اس بمباری سے دوسروں کے علاوہ عبدالصبور کے 2 بیٹے ڈاکٹر صدیق اللہ اور انجینئر بریالئی بھی مارے گئے۔
عبدالصبور کا کہنا ہے کہ میرا بڑا بیٹا صدیق اللہ جوکہ 31 سال کا تھا، اس کا 4 مہینے کا بیٹا بھی ہے، شادی کو ایک ہی سال ہوا تھا اور وہ شہدا ڈسٹرکٹ میں ڈاکٹر بھی تھا، دن 2 بجے کے قریب ملٹری جہاز آئے اور بھر بازار پر بم برسا کر چلے گے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر صدیق اللہ کا کلینک چوک پر تھا دوسرے کئی دکاندار بھی ہلاک ہوئے اور کئی دکانیں تباہ ہوئیں۔
عبدالصبور نے مزید بتایا کہ میرا دوسرا بیٹا20 سالہ انجینئر بریالئی صبوری جس نے اپنے کلاس میں پہلی پوزیشن لی تھی جب بمباری ہوئی اس وقت کوئی طالبان یا مشکوک شخص بازار میں نہیں تھا، ہمارے 2 سے 3 دکانیں تھیں اس بمباری میں میرے دونوں بچے بھی چلے گئے اوردکانیں بھی تباہ ہوگئیں۔
عبدالصبور کا کہنا ہے کہ مجھے اس بات کا دُکھ نہیں کہ سب سرمایہ ڈوب گیا ہے میں تو پھر بھی صبر کر لیتا ہوں مگر ان کی والدہ اور بہنیں دن رات روتی ہیں جبکہ رات کو میں 5 نیند کی گولیاں لیکر سوتا ہوں ورنہ نیند نہیں آتی۔
قریب ہی واقع ضلعی اسپتال بھی حملے کی زد میں آیا، یہاں تعینات ڈاکٹر نصراللہ نیازی نے بتایا کہ بمباری سے اسپتال کی ایک نرس ہلاک اور ایک ڈاکٹر سمیت کئی مریض زخمی ہوئے۔
ڈاکٹر نیازی کے مطابق طالبان کے نقصان کا تو علم نہیں لیکن مجموعی طور پر 25 عام افراد موقع پر ہلاک اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔
ڈاکٹر نیازی کا کہنا ہے کہ جب بمباری ہوئی تو میں ادھر ہی تھا، ملٹری جہاز آئے پہلے چوک شہدا پر بمباری کردی پھر ایجوکیشن آفس کو نشانہ بنایا جس سے اسپتال کے سارے شیشے ٹوٹ گئے اس کارروائی میں تقریباً 40 لوگ شہید اور زخمی ہوگئے جس میں ڈاکٹر انجینیئر اور عام لوگ شامل تھے۔
متاثرین کا مطالبہ ہے کہ عام لوگوں کو نشانہ بنانے کی عالمی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے۔
ذرائع کے مطابق جنگوں میں شہری عمارتوں اسپتالوں اور اسکولوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن افغانستان میں دیکھا گیا ہے کہ سویلین مقامات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔