Time 05 نومبر ، 2021
بلاگ

نریندر مودی نہیں نریندر ’’جپھّی‘‘

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم نے حسب عادت، حسب معمول سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ گیوٹریس کو بھی جپھی نما جپھاّ ڈالنے کی احمقانہ کوشش کی تو گیوٹرس صاحب نے انتہائی ناگواری سے برا سا منہ بناتے ہوئے اسے نرمی سے پیچھے دھکیل دیا۔

 ’’بے عزتی سی‘‘ تو نریندر مودی کی ہوئی لیکن تھوڑی سی شرمندگی مجھے بھی محسوس ہوئی تو میں نے اس کی وجہ پر غور کیا۔ اندازہ ہوا کہ پڑوسی کی بین الاقوامی بے عزتی پر میرا تھوڑا سا شرمندہ ہونا تو بنتا ہی ہے کیونکہ میں نے ’’پڑوسی کے حقوق‘‘ بارے اپنے آقاؐ کے احکامات کو تفصیل سے پڑھا، سمجھا اور یاد رکھا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان میں جنون، انتہاپسندی، ڈھٹائی، بے رحمی، ناانصافی، سفاکی اور بے شرمی ہی نہیں اک خاص قسم کی ڈپلومیسی بھی متعارف کرائی ہے جسے ’’جپھی ڈپلومیسی‘‘ کہا جاسکتا ہے اور اسے بہت سی اہم شخصیات نے تو دل پر پتھر رکھ کر اس لئے برداشت کرلیا کہ ہندوستان اک بہت بڑی ’’منڈی‘‘ ہے جس پر سابق امریکن صدربل کلنٹن کا یہ تبصرہ مجھے کبھی نہیں بھولتا کہ ’’جتنی امریکہ کی آبادی ہے اس سے کہیں زیادہ تو بھارت کی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس ہے‘‘۔

بل کلنٹن کا یہ وہ دورہ ہے جس کے اختتام پر بل کلنٹن چند گھنٹوں کے لئے پاکستان بھی تشریف لائے تھے۔ بل کلنٹن کے دورے کایہ تبصرہ اس لئے انسانیت کی توہین تھا کہ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر یہ اعتراف کر گئے کہ ’’منڈیاں‘‘ بہت اہم اور فیصلہ کن ہوتی ہیں، میرٹ جائے بھاڑ میں لیکن اسی دورے میں بل کلنٹن کا ایک اور تبصرہ بہت ہی خوبصورت اور یادگار تھا کہ جب اس نے مسلمان مغل شہنشاہ شاہجہان کا ’’تاج محل‘‘ دیکھ کر آگرہ میں کہا۔۔۔۔

’’دنیا میں صرف دو ہی قسم کے لوگ بستے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے تاج محل دیکھا اور دوسرے وہ جنہوں نے تاج محل نہیں دیکھا‘‘ میں نے تاج محل دیکھا اور جس بارے بہت کچھ پڑھا بھی ہے مثلاً یہ کہ ’’تاج محل محبت کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو ہے‘‘ اور پھر شکیل بدایونی کا یہ شعر ؎

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے

لیکن سچی بات ہے ’’تاج محل‘‘ پر بل کلنٹن جیسے خراج تحسین کا کوئی مقابلہ نہیں۔ معاف کیجئے بات نریندر مودی سے شروع ہو کر شاہ جہاں اور بل کلنٹن تک جا پہنچی جس کے لئےمیں معذرت خواہ ہوں کہ کہاں گنگو تیلی اور کہاں راجہ بھوج یعنی شاہجہان اور بل کلنٹن۔

قصہ مختصر کہ نریندر مودی المعروف نریندر جپھی صاحب جوجو کچھ کر رہے ہیں، اللہ نہ کرے پورے ہندوستان کو اس پر بری طرح پچھتانا اور اس کی قیمت چکانا پڑے کہ وہ اپنے سادہ لوح عوام کے ایک مخصوص، محدود حصہ کو جس طرف لے جا رہے ہیں اس کی گلوبل ویلیج میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ بھیانک ترین انجام ہوگا جس کا ’’پرومو‘‘ انگلینڈ کے وزیر اعظم کے ساتھ نریندر جپھی کی ملاقات میں چل چکا جس کی ہائی لائٹ خالصتان موومنٹ اور حالیہ ریفرنڈم تھا۔

نریندر جپھی صاحب اپنے ملک کا مستقبل ہی نہیں اپنی مقدس ’’گیتا‘‘ کوبھی رگید اور روند رہے ہیں۔ ’’گیتا‘‘ کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار یہ خیال آیا کہ دنیا میں ذلت ان لوگوں کا مقدر ہوتی ہے جو اپنی مقدس کتابوں کی بنیادی تعلیمات کو بری طرح MISINTERPRETکرکے بھولے بھالے عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے انہیں ذلیل و رسوا و پسپا کر دیتےہیں۔ یہ مکروہ مائنڈسیٹ کہاں سے آیا کہ بھارت میں کچھ لوگ اپنی ہی کرکٹ ٹیم کے کپتان کو اس کی چند ماہ کی معصوم بچی کے حوالہ سے اتنی غلیظ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ایک انسان کے طور پر ان کا ذکر کرتے ہوئے بھی مجھے شرم آ رہی ہے۔ یہ انسان تو کیا، جانور بھی نہیں ہیں اور لعنت ایسی لیڈر شپ پر جو آدمی کو انسان بنانے کی بجائے جانوروں میں تبدیل کردے، بدترین جانور میں۔

’’پاپولریٹی‘‘ انعام بھی ہے امتحان بھی، لیکن کیا ہٹلر اور مسولینی اپنے وقت کے مقبول ترین لیڈرز نہیں تھے؟ جنہوں نے اپنے عوام کو سرعام نیلام کردیا اور آج نفرت و حقارت کی علامتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔جاپانیوں نے دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بموں کو بھگتنے کے بعد بھی ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے جرنیل آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑنے کے لئے سربکف تھے جب ان کے شہنشاہ نے ایک تاریخ شکن اور تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ...

’’ہتھیار پھینک دو، اوزار اٹھا لو‘‘۔ یہ ہوتی ہے لیڈر شپ!

آج کا جاپان دیکھ لو، جس نے چند عشروں کے اندر اندر امریکہ کی نخوت کو سرنگوں کردیا لیکن افسوس ایسی باتیں چائے فروش ’’نریندر جپھی‘‘ کو سمجھ نہیں آئیں گی۔ اس کے لئے عالی دماغ، عالی ظرف قیادتوں کی ضرورت ہوتی ہے . . . . . جعلی جپھیوں کی نہیں!!! اصلی قیادتوں کی جو گھٹیا مقبولیت سے کہیں ماورا ہوتی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔