عوام پر ایک اور پیٹرول بم

حکومت نے رات گئے ایک اور پیٹرول بم گرایا‘ پیٹرولیم کی مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ 3ماہ سے مسلسل جاری ہے ۔جولائی کے آخر میں پیٹرول112.60روپے لیٹر تھا ،جو 3ماہ میں بڑھتے بڑھتے آج145روپے 82پیسے پر پہنچ چکا ہے ۔ 5دن پہلے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ پیٹرول کی قیمت نہیں بڑھائیں گے اور 2دن پہلے قوم سے خطاب میں پیٹرول مہنگا ہونے کی نوید سنا دی ۔

قوم سے خطاب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے 13کروڑ افراد کے لئے آٹا، دال اور گھی پر 30فیصد سبسڈی کا حامل 120ارب روپے مالیت کا تاریخی ریلیف پیکج پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سبسڈی آئندہ 6ماہ تک ہوگی۔ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے جس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں،اگر دوبڑے خاندان30سال میں لوٹی ہوئی نصف رقم واپس لے آئیں تو کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آدھی کر دوں گا، حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے،عالمی سطح پر مہنگائی میں 50فیصد کے مقابلے میں پاکستان میں یہ شرح صرف 9فیصد ہے،عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں کے تناظر میں ملک میں پٹرول کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی ورنہ خسارہ بڑھے گا، محصولات میں کمی آئے گی سردیوں میں گیس کا مسئلہ بھی جنم لینے والا ہے،پاکستان میں درآمدی گیس کی قیمت بڑھانے پر مجبور ہیں۔

حکومت کو کاروباری سوچ کو خیر باد کہہ کر عوام کی قوتِ خرید کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں، کیونکہ بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ مارکیٹ اور ملک کے پورے معاشی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے۔ مہنگائی پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس سے اور بھی اثر پڑے گا اور براہِ راست نچلا اور نچلا متوسط طبقہ بری طرح متاثر ہو گا۔

سفید پوش ملازمین اور دیہاڑی دار مزدور پہلے ہی مشکل ترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صارفین کا یہ خدشہ بے بنیاد نہیں، پہلے ہی سے یہ کہا جا رہا تھا کہ بجٹ کے علاوہ منی بجٹ بھی آتے رہیں گے اور توقع کے عین مطابق یہ گیس، بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں بار بار اضافے کی صورت میں آ رہے ہیں۔معیشت کو بہتر اور مضبوط بنانے کا دعویٰ کرنے والے سرکاری معیشت دانوں اور وزارتِ خزانہ کو غور کرنا ہو گا کہ بھوک اور افلاس معاشرے کیلئے زہر قاتل ہے۔

وفاقی بجٹ کے حوالے سے مہنگائی میں اضافے کا جو خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، وہ سامنے آنے لگا ہے اور نئے مالی سال کے آغاز ہی سے مجموعی طور پر اشیاء کے نرخوں میں25فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ادھروفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے 2سال کا تقابلی جائزہ بھی جاری کر دیا گیا ہے، اس کے مطابق جو اضافی فرق پڑا وہ گندم کی قیمت19فیصد، آٹے کی قیمت 13.43فی صد، گندم سے تیار اشیا25فیصد، بیکری اور کنفیکشنر ی 17.39 فیصد، گوشت 16.66فیصد، دودھ 14فیصد، انڈے39 فیصد اور مکھن 14فیصد ہے۔ یہ موازنہ جون2020ء اور جون2021ء کے درمیان کا جاری کیا گیاتھا۔ تاہم اب نرخوں میں یکم جولائی سے اب تک 30سے 40فیصد تک اضافہ کر دیا گیا، خصوصاً برانڈڈ اشیاء ان میں بیکری، کنفیکشنری، چائے، صابن، ڈیٹرجنٹ پاؤڈر اور مصالحے شامل ہیں۔ 

سبزی اور پھل بھی متاثر ہوئے اور نرخ بڑھے ہیں۔یہ غیر متوقع نہیں تھا کہ بجٹ میں جو ٹیکس لگائے یا بڑھائے گئے یا ان میں ردوبدل کیا گیا،ان کے اثرات ایسے ہی مرتب ہونا تھے۔یہ مالی سال خوراک کے لحاظ سے بھی مشکل ہو گا کہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔اس حوالے سے وزارت خزانہ کے دعوے درست ثابت نہیں ہوئے،مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

دوسری جانب چینی کی قیمت اب گھنٹوں کے حساب سے بڑھنے لگی ہے ملک میں چینی کا بحران شدید ہوگیا اورکئی علاقوں میں چینی کی فی کلو قیمت 150 روپے سے تجاوزکرگئی ہے۔کراچی میں چینی کی ہول سیل قیمت 130روپے کلو جبکہ خوردہ قیمت 138 روپے ہوگئی ہے۔ اسی طرح لاہور کی ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 135روپے ہو گئی ہے، لاہور کی پرچون دکانوں میں چینی 140 روپے فی کلو فروخت ہونے لگی ہے،لاہور میں مقامی چینی کا 50 کلوکا تھیلا 7 ہزار 50 روپے کا ہوگیا۔

پشاور میں 3روز پہلے 6ہزار میں ملنے والی 50کلو چینی کی بوری 7100روپے تک پہنچ گئی، اس طرح چینی کی ہول سیل قیمت 140روپے کلو ہے جبکہ کریانے کی دکانوں میں چینی قیمت 145سے 150روپے فی کلو تک ہو گئی ہے۔اسی طرح کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بڑے شہروں میں چینی فی کلو 150روپے جبکہ قصبوں میں 160سے 165روپے فی کلو تک جاپہنچی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔