بلاگ
Time 14 نومبر ، 2021

افغان طالبان کا مخمصہ اور پاکستان کی نیاز مندی

امارات اسلامی طالبان بڑے مخمصے میں ہے۔ بیس برس تک بڑے دم خم اور گوریلا حکمت عملی سے افغانستان پر استعماری غلبے کو شکست دینے کے لیے انہوں نے افغان مزاحمتی روایت کو خوب نبھایا لیکن جونہی امریکی انخلا ہوا تو اس کے ساتھ ہی وہ تمام وافر ذرائع، معیشت و ریاست کا کاروبار، انتظامیہ اور اس سے جڑے تعلیم یافتہ اور پیشہ ور عناصر اور سماجی خدمات کے عالمی ادارے بھی رفوچکر ہوگئے۔ 

افغان طالبان کابل میں بلا مزاحمت پیدل داخل ہوئے تو سب کچھ تحلیل ہوچکا تھا، رہی سہی کسر معاشرے کے تمام فعال و پیشہ ور عناصر اور ڈالرز کے انخلا نے پوری کردی۔ امارات اسلامی طالبان کی فتح کی بنیاد تو اس امن معاہدے نے رکھ دی تھی جو امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں طے پایا تھا۔ 

لیکن اس معاہدے کے تسلسل میں افغانوں کے مابین جس وسیع البنیاد حکومت نے وجود میں آنا تھا وہ افغانوں کی باہم روایتی خلفشار کی نذر ہوگئی۔ سابق صدر اشرف غنی کے شرمناک فرار سے میدان کلی طور پر افغان طالبان کے ہاتھ آگیا۔ اس کے ساتھ ہی افغان طالبان کے سیاسی، سفارتی صلاح کاروں کو کنارے لگادیا گیا اور مرد میدان جہادی کمانڈر سرعت سے اسلامی امارات پر حاوی آگئے۔ 

اس کی حالیہ مثال کابل اور بلخ کے گورنرز ہیں اور زیادہ تر وزارتی و حکومتی تعیناتیاں ہیں۔ اوپر سے داعش خراسان اور دیگر مستقل جہادی عناصر اور ان کی تنظیمات ہیں جن کے پاس سوائے جہاد کے اور کوئی متبادل نہیں اور وہ اپنی دانست میں افغان طالبان کو سمجھوتہ باز سمجھتے ہیں، جبکہ لبرل اپوزیشن نے راہ فرار اختیار کی ہے۔ 

بعد از جہاد زمانے میں شریعت کے نفاذ کے تقاضے پیدا ہو چکے ہیں جو افغانستان کے قبائلی اسلام کی صورت میں نہایت انسانیت سوز ہیں۔ بطور مذہبی تنظیم افغان طالبان کو کوئی تشکیل سمجھ آتی ہے تو وہ فقط ایک امیر یا خلیفہ اور اس کی پسند کی شوریٰ ہے جسے وہ پچھلی اور موجودہ دولت اسلامیہ کے مماثل تصور کرتے ہیں۔

اب جب جہاد کرتے کرتے طالبان اچانک کابل پہ قابض ہوئے تو ریاست اور اس کے تمام لوازماتِ معیشت و کاروبار اور ماہرین و اہلکار سب کے سب ہوا ہوئے۔روٹی ہے نہ پانی ہے، دوا ہے نہ دارو ہے، نوکری ہے نہ کاروبار، ریاستی اہلکار ہیں نہ مالیاتی نظام۔ آدھے سے زیادہ افغان بھوکوں مررہے ہیں اور ریاست و معیشت کا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ 

عالمی مالیاتی ناکہ بندی کچھ دیر جاری رہی تو دیکھئے قحط زدہ، بے حال، بیروزگار، افغان کیا حشر بپا کرتے ہیں؟ لیکن طالبان حکومت کی ہٹ دھرمی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور عالمی برادری اپنی شرائط پہ سختی سے قائم ہے۔ 

اسلام آباد میں امریکہ، چین، روس اور پاکستان کے سفارتی نمائندوں کا جو اجلاس ہوا، اس کے اعلامیہ میں وہی شرائط نمایاں رہیں جس کا اظہار عالمی برادری مسلسل کرتی آئی ہے۔ افغانستان میں وسیع البنیاد شراکتی حکومت، عالمی انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق پر عملدرآمد اور افغان سرزمین پر ممکنہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے عالمی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی جس کا مطالبہ پاکستان، ایران، چین، روس سمیت وسطی ایشیاکے تمام ممالک کررہے ہیں۔ 

اس سے ملتے جلتے مطالبات آٹھ ملکوں کے سلامتی کے مشیروں نے دہلی میں منعقد ہونے والے افغانستان پر ڈائیلاگ کے دوران کیے ہیں جس میں زیادہ زور افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے سدباب پہ دیا گیا ہے۔

افغان طالبان کے سامنے دو راستے ہیں: سوائے پاکستان اور قطر کے افغان طالبان حکومت دنیا بھر میں تنہا ہے اور اسے سفارتی قبولیت نہیں مل رہی جس کی کہ اسے اشد ضرورت ہے۔ افغان انتظامیہ کو معیشت کی بحالی، ریاستی انتظام اور بڑھتے ہوئے انسانی المیے سے نپٹنے کیلئے بھاری بیرونی امداد درکار ہے۔ 

لہٰذا طالبان کے سامنے واحد عملی راستہ یہ ہے کہ وہ عالمی برادری کے تقاضوں اور افغان عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے عملیت پسندانہ راہ نکالے۔ دنیا کو صرف دو وجوہ سے افغانستان سے غرض ہے کہ افغانستان پھر سے عالمی دہشت گردی کا مرکز نہ بن جائے اور افغان عوام کا انسانی المیہ دسیوں لاکھ افغانوں کو مہاجر بن کو ہجرت کرنے پہ مجبور نہ کردے۔ا فغان طالبان حکومت ان دونوں چیلنجوں سے نپٹنے میں عالمی برادری کا ساتھ دیتی ہے تو اس کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ 

وگرنہ عالمی برادری کسی بڑے فتنے کو کیوں مضبوط کرے گی اور طالبان کے زوال کا انتظار کرے گی۔ پاکستان کا بازو مروڑنے کے لیے ان کے پاس تحریک طالبان پاکستان موجود ہے اور اب پاکستان میں مزید لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کی سکت بھی نہیں رہی۔ نہ ہی پاکستان کے پاس اس قدر وسائل ہیں کہ وہ افغانوں کا پیٹ بھرسکے۔

 تحریک طالبان افغانستان نے جس طرح تحریک طالبان پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور اب وہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کے ضامن بن بیٹھے ہیں، سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے واحد سرپرست کے ساتھ ایسا شاطرانہ اور گھناؤنا کھیل کھیل سکتے ہیں تو افغانستان میں موجود بیرونی دہشت گردوں کے حوالے سے ایران، وسطی ایشیا، چین اور روس کے ساتھ کیا کھیل ہے جو نہیں کھیل سکتے۔ 

یہی وجہ ہے کہ خطے کے تمام ممالک بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور امریکہ و یورپ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ مہینوں میں داعش اور القاعدہ پھر سے عالمی دہشت گردی کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ عالمی تنہائی اور داخلی بحران سے نکلنے کے لیے طالبان کو وہ سب کچھ بدلنا اور کرنا پڑے گا جس کا تقاضا عالمی برادری کررہی ہے۔

 اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور دیگر جہادی گروپوں سے ان کی جہادی یکجہتی نظریاتی طور پر مضبوط رہتی ہے اور وہ اپنی موجودہ روش برقرار رکھتے ہیں تو پھر وہ خود کو اور افغانستان کو ایک اور بدترین ابتلا میں مبتلا کرلیں گے۔ 

افغانستان کے اس ابھرتے ہوئے تضاد اور بحران کا سب سے بدترین اثر پاکستان پر ہونے جارہا ہے لیکن پاکستانی انتظامیہ افغان طالبان کے سامنے ہی نہیں بچھی جارہی، بلکہ ٹی ٹی پی کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہورہی ہے کہ اگر انہیں قبول نہیں کیا جاتا تو سرحد پار سے خود کش حملوں کے لیے تیار رہو۔ 

پاکستانی طالبان نے افغان طالبان کے امیر کی بیعت کی ہوئی ہے تو وہ اسلامی امارات افغانستان ہی کا حصہ ہیں اور ان کی کارروائیوں کی ذمہ دار طالبان حکومت ہے۔ کہیں یہ تو نہیں ہونے جارہا کہ افغان طالبان اپنے ساتھ پاکستان کو بھی لے ڈوبیں یا پھر ٹی ٹی پی سے صلح کر واکے پاکستان کو بھی اسلامی امارات بنانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔