16 نومبر ، 2021
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ ازخودنوٹس میں ریمارکس دیے کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کا کوئی بھی کام خفیہ نہیں ہوسکتا، جو کچھ آج تک کیا ہے سب بتائیں۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس دیے کہ جس کا دل کرتا ہے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جاتا ہے، بلاوجہ لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت بلوچستان کی درخواست پر عامر احمد سمیت دیگر افراد کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے تھے، 24 نومبر کو نظر ثانی بورڈ کے اجلاس میں ان افراد کے ناموں پر دوبارہ غور ہوگا۔
ممبر نیکٹا آصف سیف اللہ نے عدالت کو بتایا کہ فورتھ شیڈول میں نام ڈالنے کا فیصلہ صوبائی حکومت کرتی ہے۔
عدالت نے ڈی جی کاؤنٹر ٹیرارزم کو روسٹرم سے ہٹاتے ہوئے کہا کیوں نہ آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیں؟ سپریم کورٹ شہریوں کی آزادی یوں سلب نہیں ہونے دے گی، نیکٹا کا کوئی بھی کام خفیہ نہیں ہو سکتا ہے جو کچھ آج تک کیا ہے سب بتائیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ نیشنل ایکشن پلان بھی نیکٹا نے ہی بنایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیکٹا کا 21 گریڈ کا افسر ویب سائٹ اپڈیٹ کرتا ہے، یہ تو اسسٹنٹ کلرک کا کام ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے پوچھا کہ نیکٹا کیسے دہشت گردی روکتا ہے؟ اس پر نیکٹا کے ممبر نے بتایا کہ ریسرچ کرتے ہیں اور ماہرین سے آرٹیکلز لکھواتے ہیں۔
عدالت نے نیکٹا سے انسداد دہشت گردی اقدامات کی تفصیلات طلب کر لیں جبکہ بازیاب شہریوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا ریکارڈ بھی فراہم کرنے کا حکم دیا۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔