بلاگ
Time 22 نومبر ، 2021

ابھرتا ہوا نیا سیاسی منظر نامہ !

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اگلے روز جو کچھ ہوا ، وہ پاکستان میں نئے سیاسی منظر نامے کی طرف نشاندہی کر رہا ہے ۔ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے پارلیمانی روایات اور اپوزیشن کی رائے کو بلڈوز کرتے ہوئے 33 مسودہ ہائے قوانین ( بلز ) کی منظوری حاصل کر لی ہے

جن میں الیکشن ایکٹ 2017ء میں دو ترامیم کا متنازع بل بھی شامل ہے ، جو انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین ( ای وی ایم ) کے استعمال اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق ہے ۔ اپوزیشن نے ہر فورم پر اس بل کو چیلنج کرنے اور اس کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اسے شاید اس قانون سازی کو واپس کرانے میں کامیابی نہ مل سکے ۔

اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اگلے انتخابات اور ان کے فوری بعد ایک نیا سیاسی منظر نامہ ابھر سکتا ہے ۔ کیونکہ اگلے عام انتخابات اگر ای وی ایم کے ذریعے ہوئے تو یہ پاکستانی تاریخ کے انتہائی متنازع انتخابات ہوں گے ۔

حکومت نے ای وی ایم پر نہ صرف اپوزیشن کے اعتراضات کو مسترد کر دیا ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے تحفظات کو بھی نظر انداز کر دیا ہے ۔ حکومت کے بعض حامی حلقے صرف اس دلیل کی بنیاد پر ای وی ایم کو لازمی قرار دے رہے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہئے ۔

جدید ٹیکنالوجی کی کوئی مخالفت نہیں کرتا لیکن ای وی ایم کی جن خامیوں کی نشاندہی الیکشن کمیشن یا اپوزیشن نے کی ہے ، انہیں دور کرنے کا مطالبہ جدید ٹیکنالوجی کی مخالفت کیسے قرار پائے گا ؟ تحریک انصاف کی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ان خامیوں کو دور کرنے کےلئے تکنیکی ماہرین کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت جاری رکھتی اور ان کی رہنمائی حاصل کرتی ۔

جب اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور الیکشن کے ذمہ دار ادارے الیکشن کمیشن کو اطمینان ہو جاتا اور خامیوں سے پاک یا کم سے کم خامیوں والی الیکٹرونک ووٹنگ مشین ( ای وی ایم ) پر اتفاق کر لیا جاتا ، تب حکومت قانون سازی کرتی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وقت تھوڑا بچا تھا ۔ اس لئے حکومت نے قانون سازی کر لی مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو جو وقت ملا تھا ۔

اس میں اس نے اپوزیشن یا الیکشن کمیشن سے ایسی مشاورت نہیں کی ، جو اسے کرنا چاہئے تھی ۔ تھوڑی بہت مشاورت کے بعد ای وی ایم پر جو اعتراضات سامنے آئے ، انہیں بھی دور کرنے کی کوششیں نہیں کیں ۔

اپوزیشن اور الیکشن کمیشن کے ای وی ایم پر اعتراضات ایسے نہیں ہیں ، جنہیں نظر انداز کیا جا سکے اور آئندہ عام انتخابات میں اگر یہی ای وی ایم استعمال کی گئی تو اپوزیشن کی موجودہ جماعتوں سمیت کوئی بھی انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے سے متعلق طریقہ کار بھی طے نہیں کیا گیا ۔ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کی ایک مثال موجود ہے ۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں مہاجرین کی نشستیں ہیں ، جو آزاد کشمیر سے باہر رہتے ہیں ۔

ان نشستوں پر جو دھاندلی ہوتی ہے ، وہ سب کے سامنے ہے ۔ حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن کی جماعتوں کو آزاد کشمیر کے اندر تقریباً برابر کی نشستیں ملی ہیں ۔ مہاجرین کی زیادہ تر نشستیں تحریک انصاف لے گئی ہے ۔ ان کی بنیاد پر وہاں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی ہے ۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر میں رہنے والے لوگوں کا مینڈیٹ جو کچھ بھی ہو ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اصل فیصلہ مہاجرین کے ووٹ سے ہوتا ہے ، جو وہ خود نہیں ڈالتے ۔ میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے لیکن ان کے 40لاکھ ووٹوں کا غلط استعمال کرکے پاکستان کے عوام کے حقیقی مینڈیٹ کو بدلنے کی کوشش کی گئی تو اس کے بہت خوفناک اثرات مرتب ہوں گے ۔

بیرون ملک مقیم باشندے بنیادی سیاسی دھارے میں نہیں ہوتے ۔ ان کے ووٹ کا غلط استعمال کرکے بنیادی سیاسی دھارے کو بدلنے کی کوشش انتہائی خطرناک ہو گی ۔ اس معاملے پر بھی عام انتخابات میں بہت اعتراضات ہوں گے کیونکہ ووٹنگ کا اطمینان بخش طریقہ کار طے نہیں کیا گیا ہے ۔

ایک اور غیر معمولی بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ تحریک انصاف کی گرتی ہوئی مقبولیت میں اسے سہارا دینے کے لئے تحریک لبیک پاکستان اور دیگر مذہبی قوتوں کو آگے لایا جا رہا ہے ، جو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کی اتحادی ہوں گی اور وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو متاثر کریں گی ۔ یہ سیاسی صف بندی پاکستان کو ماضی کی تصادم والی سیاست کی طرف دوبارہ دھکیل دے گی ۔ متنازع انتخابات اور تصادم کی سیاست واضح نظر آ رہے ہیں ۔

اپوزیشن کی موجودہ سیاسی جماعتیں اس صورت حال کو اس طرح قبول نہیں کریں گی ، جس طرح انہوں نے 2018ء کے انتخابات کو مصلحتاً قبول کیا ۔

اس صورت حال سے غیر سیاسی قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔ اگر عام انتخابات غیر متنازع ، منصفانہ اور شفاف ہوں تو اس صورت حال سے بچا جا سکتا ہے ۔ وہ کیسے ؟ شاید عدالتیں کوئی راستہ نکال سکیں ۔ بصورت دیگر متنازع انتخابات اور تصادم کی سیاست سے جو منظر نامہ ابھر رہا ہے ، وہ نوشتہ دیوار ہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔