25 نومبر ، 2021
ہمارے پاس کس شے کی کمی ہے ؟ لیکن بے برکتی اور نحوست ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہی بلکہ اس کی تہوں اور جہتوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔دلدل گھنی اور گہری ہوتی جارہی ہے حالانکہ ’’راہنما‘‘ اتنے کہ گنے نہیں جاتے لیکن راہیں مسدود ہیں، منزلیں غائب ہیں۔
دانشور ایسا ایسا جس کو ہر مسئلے کا علم ہے اور اس کا حل بھی موجود ہے ۔
پہنچے ہوئے پیروں فقیروں کی بھی کمی نہیں ۔
اولیا کرام کے مزاروں پر بھی رونقیں ہیں۔
مسجدیں بھی ماشااللہ آباد ہیں اور جمعہ کو تو سڑکوں پر بھی صفیں بچھانی پڑتی ہیں ۔
ٹیکنوکریٹس بھی سنبھالے نہیں جاتے۔
لیکن کوئی شے بھی اپنے ٹھکانے پر نہیں، آنکھیں ماتھے پر ہیں، ہونٹ کانوں کی جگہ، کان سر پر شفٹ ہو چکے، ناک گردن پہ، بازوؤں کی جگہ ٹانگیں اور ٹانگوں کی جگہ بازو نکل آئے ۔تازہ ترین خوشخبری نے تو میرے حلق میں کربلا بچھا دیا اور خوشخبری بلکہ ’’خشک خبری‘‘ یہ ہے کہ ’’واسا‘‘ نے پانی بھی 110فیصد مہنگا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تفصیل جس کی یہ ہے کہ ٹیرف تبدیلی 5 سال پر محیط ہو گی پہلے سال 30، دوسرےتیسرے سال 25،25، چوتھے سال 20 اور 5ویں سال 10فیصد اضافہ ہو گا جسے ’’قسطوں میں موت‘‘ کا عنوان بھی دیا جا سکتا ہے اور یہ سب کچھ ’’پنج آب‘‘ یعنی پانچ پانیوں کی سرزمین کے دارالحکومت لاہور میں ہو گا۔ مقصد ہے اس کا ’’واسا‘‘ کی آمدنی میں اضافہ۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، گجرانوالہ میں قیمتیں بڑھیں گی سو ان شہر کے باسیوں کو چاہئے کہ ان شہروں سے ہجرت کر جائیں یا جتنا نہانا دھونا ہے نہا دھولیں، جتنا پانی پینا ہے، اونٹ کی طرح اپنے اندر ذخیرہ کر لیں۔
خوشحال اور متمول لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن جن غیور باشعور ہم وطنوں کو پہلے ہی دو وقت کی روٹی مسئلہ بنی ہوئی ہے ان کیلئے زندگی مزید مشکل ہو جائے گی کیونکہ IMPکے ساتھ معاہدہ کے سائیڈایفکٹس اور آفٹر ایفکٹس بھی جلد ہی جلوہ گر ہوں گے ۔زندگی سے زندگی کے بارے کچھ شعر یاد آ رہے ہیں۔برج نارائن چکبست صاحب کہہ گئے ؎
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشان ہونا
میں نے کالم کے آغاز پر عرض کیا تھا کہ یہاں کوئی شے اپنے ٹھکانے پر نہیں تو اسی صورت حال کو کہتے ہیں کہ موت دراصل ’’اجزا کے پریشان‘‘ ہونے کا نام ہے، ’’ظہورترتیب‘‘ ہی زندگی ہے یعنی جب جب تک عناصر، اعضا، اداروں میں ’’ترتیب‘‘ رہے گی، زندگی چلے گی ورنہ ....’’حق مغفرت کرے عجب آزاد بلکہ مادر پدر آزاد مرد تھا ‘‘
ساغر صدیقی نے بھی خوب کہا
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
جبکہ اس نظام میں تو جرم نہیں، جرائم سرزد ہوئے اور یہ نظام ایسا آدم خور ہے کہ مجرم نہ صرف تقریریں کرتے ہیں بلکہ آنکھیں بھی دکھاتے ہیں۔ تقریباً تیس سال ہو گئے مختلف انداز میں یہ عرض کرتے ہوئے کہ ارض پاک کا صدقہ اتارو اور یہ صدقہ کم از کم اس نظام کا ہونا چاہئے جسے ’’آدم خور نظام‘‘ لکھتے لکھتے میری انگلیاں گھس گئیں اور ایک بار پھر مکررارشاد ہے کہ پانی بھر بھر بوکے بالٹیاں نکالنا بند کرکے، ہوسکے تو اس اندھے کنویں سے مردہ کتے نکالو یعنی بنیادی اور جوہری تبدیلیاں لانے کا سوچو ورنہ جتنی مرضی ڈنڈ بیٹھکیں لگا لو ....کچھ نہیں ہو گا کہ نوبت روٹی کے بعد پانی تک جا پہنچی ہے اور ہوائوں فضائوں میں آلودگی پہلے ہی عروج پر ہے ۔
صدقے کے بارے بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ’’ردِ بلا‘‘ ہوتا ہے جبکہ ہمیں تو قدم قدم پر بلائوں کا سامنا ہے اور بلائوں سے نمٹنے کا جو طریقہ عدیم ہاشمی مرحوم دے گئے، وہ بہت ہی خطرناک ہے۔پہلے یہ شعر عمران خان کا تکیہ کلام تھا، آج کل فواد چودھری کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
ماڈرن بلائوں سے نمٹنے کیلئے ’’سربکف‘‘ ہونا نہیں، سر کے اندر موجود مغز نامی شے کا استعمال ضروری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔