بلاگ
Time 25 دسمبر ، 2021

بلدیاتی اداروں، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کیلئے .....

صاحب جی مجھے پولیس والے تنگ کرتے ہیں، مہربانی کرکے انہیں کہیں کہ ہمیں تنگ نہ کیا کریں،میرے گھر سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے والا الیاس کبھی کبھار اس طرح کی مدد کی درخواست کرتا رہتا ہے، بعض اوقات پولیس والے ہی نہیں شہرکے اوباش بھی اس پرآکررعب جماتے اور اس سے پیسے اینٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

وہ تنہا نہیں بلکہ اس کی اہلیہ بھی اکثراس کے ساتھ میری گلی کے ہر گھر سے کوڑا اکٹھا کرکے لیجاتے ہیں۔ اس کے عوض مہینے کے آخر میں انہیں تھوڑے سے پیسےمل جاتے ہیں۔ چند لوگ تو یہ معمولی سی رقم دینے کا تکلف بھی نہیں فرماتے اور بعض تو الیاس کے ساتھ سلام کرنا یا ہاتھ ملانا تک پسند نہیں کرتے۔ یہ خاندان سب کی ضرورت ہے مگر اسے ’’نیچ‘‘ یا ’’کمتر‘‘ ہی سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ الیاس یا اس کے پیشے کا نہیں مسئلہ ہماری منفی معاشرتی سوچ کا ہے جوہمیشہ اپنے محسنوں اورمحنت کشوں کے ساتھ اسی نوعیت کا سلوک کرتی ہے۔

میں اسلام آباد کے جس علاقے میں رہتا ہوں یہ دیہی علاقہ کہلاتا ہے اور  ایسے دیہی علاقے وفاقی ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کے دائرہ کارمیں نہیں آتے بلکہ یہ بلدیاتی اداروں اور ان کی عدم فعالیت میں چیف کمشنر و ڈپٹی کمشنر کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔یہاں صفائی کا کوئی مناسب نظام موجود ہی نہیں۔

الیاس اور اس جیسے کئی لوگ روزی روٹی کمانے کے لیے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کا کام سرکاری نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں کررہے ہیں۔ 2020 کے آغاز میں مجھے کچھ دن آسٹریلیارہنے کا اتفاق ہوا تو وہاں صفائی کا نظام بھی نظرسے گزرا۔ آسٹریلیا میں کوڑا کرکٹ جمع کرنے والے خصوصی گاڑیوں پر ہفتے میں تین مرتبہ ہرگھر آتے ہیں۔ 

ہرگھر کے باہر سرخ ، سبز اور پیلے رنگ کے تین ڈبے پڑے ہوتے ہیں۔ سرخ ڈبے میں گھروالے ہفتہ بھر میں جمع ہونے والا عام اور ناقابلِ استعمال کچرا رکھتے ہیں،سبز ڈبے میں ضائع ہونے والی خوراک رکھی جاتی ہیں جو بعد میں کھاد بنانے کے کام آتی ہیں جبکہ پیلے رنگ کے ڈبے میں ایسا کچرا رکھا جاتا ہے جو دوبارہ استعمال میں لایا جاسکے ایسے کچرے کومتعلقہ صنعتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

کوڑے والے ہرہفتے آتے ہیں اور ہرگھر کے باہر سے یہ ڈبے خالی کرکے واپس اپنی جگہ پررکھ جاتے ہیں۔ گلی محلے میں صفائی کا ایک الگ نظام موجود ہے۔ اس کے لیے الگ افراد اورٹولیاں آتی ہیں جو گلیوں میں مٹی اوردرختوں کے پتوں کو ہفتے میں کم ازکم ایک بار صاف کرتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ دراصل آسٹریلیا کے ہرعلاقے کے بلدیاتی اداروں کی زیرنگرانی کام کرتے ہیں۔ 

یہ بلدیاتی ادارے اپنے ضلع کے مئیر اور اسکے سیکرٹریٹ کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ اب پاکستان کا حال دیکھ لیجیے یہاں اول تو بلدیاتی انتخابات ہی نہیں ہوتے،ہو بھی جائیں توبلدیاتی اداروں کواختیارات اورفنڈزنہیں دئیے جاتے اور اگر دے بھی دئیے جائیں تو انکی مناسب تقسیم اس لیے بھی گومگو کا شکار رہتی ہے کہ اکثرحکومتیں بلدیاتی نظام چلانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتیں حالانکہ جمہوریت صرف قومی و صوبائی اسمبلیوں ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ بلدیاتی اداروں کا بھی نام ہے۔

منتخب بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی کے باعث سارا نحصار بیوروکریٹس یعنی کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز،اسسٹنٹ کمشنرزاورمجسٹریٹس پرکیا جاتاہے۔ جو اُ ن پر نجانے کیوں توجہ نہیں دے پاتے۔ 

اگلے روز گھر سے نکلتے وقت میں نے اپنے علاقے کی ایک ویڈیو بنائی اور پھر ایک شہری کی حیثیت سے اسے نہ صرف سوشل میڈیا پرپوسٹ کیا بلکہ اسلام آباد کے نوجوان ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت سے فون پربھی بات کی۔ حمزہ نے فوری طورپر ہمارے علاقے کی اسسٹنٹ کمشنر سدرہ انور کو ضروری ہدایات دیں۔ جنہوں نے پہلے علاقے میں اعلانات کروائے کہ اب جس کاروباری مرکز کے سامنے کوڑا کرکٹ ہوا اسے جرمانہ ہوگا پھر انہوں نے علاقے کی کاروباری تنظیموں کے ساتھ ملکر شعورکی بیداری کاسلسلہ شروع کیا۔

اسلام آباد کے بلدیاتی نظام میں چالان کا اختیار کمشنرکے ذریعے اسسٹنٹ کمشنرزاورمجسٹریٹس کے پاس موجود ہے جوصفائی کے اصول پر عمل پیرا نہیں ہوگا اسے چالان ، جرمانے اورسزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شہرکے دیہی علاقوں کی صفائی کے لیےڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت اوراسسٹنٹ کمشنرسدرہ انور آگے بڑھے ہیں، اُن کا یہ عمل لائقِ تحسین ہیں۔ 

اسلام آباد کی مثال سے ہٹ کرملک کے دیگراضلاع میں بھی بلدیاتی اداروں کے عہدیداروں اور ضلعی انتظامیہ کے ڈپٹی کمشنرز ، اسسٹنٹ کمشنرز، مجسٹریٹس ودیگرافسروں کوبھی اپنے اپنے علاقوں کی صفائی کا خیال کرنا ہوگاکیونکہ ماحول کی گندگی معاشرے کے ہرفرد کی شخصیت اور سوچ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

اسلام آباد سمیت ملک کے ہرضلع میں نہ صرف صفائی کویقینی بنانا ہوگا بلکہ الیاس اور اس جیسے افراد کے معقول و مستقل معاوضے اورمعاشرے میں ان کی عزت افزائی کے لیے اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ میں، آپ اور ہم سب نجانے کس کا انتظارکررہے ہیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔