26 دسمبر ، 2021
حزب اختلاف وہ کام نہ کر پائی جو تحریک انصاف نے بذات خود انجام دے ڈالا۔ خیبر پختون خوا کی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں مہنگائی اور بد انتظامی سے تنگ آئے عوام نے ایسا پٹخا دیا کہ پی ٹی آئی کی اُس کے قلعے میں ہی کمر توڑ کر رکھ دی۔
پارٹی ایسے اندرونی خلفشار کا شکار ہوئی کہ عمران خان کی کرشمہ سازی بھی اُسے سنبھال نہ پائی اور ایسے وقت میں جب دوسرے مرحلے کے مقامی انتخابات کا معرکہ درپیش ہو اور پارٹی شکست کے سخت صدمے سے دوچار ہو، اناڑی پن کا اِس سے بڑا مظاہرہ کیا ہو سکتا ہے کہ کپتان نے ساری پارٹی ہی کو معطل کر دیا۔
یہ تنظیمی انہدام پارٹی کے تابوت میں شاید آخری کیل ثابت ہو۔ کوئی کمانڈر بیچ جنگ میں کبھی اپنی فوجوں کو منتشر کرنے کا آرڈر دیتا ہے ؟ یہ کمال ہمارے خان صاحب ہی کا ہے، اب بغیر پارٹی کے وہ تن تنہا اگلے مرحلے کے مقامی انتخابات میں دیوار پر لکھی شکست کا سہرہ اپنے سر پر سجانے کو تیار ہیں جو کہ پہلے مرحلے سے بھی زیادہ اور ممکنہ طور پر دندان شکن ہو گی۔
اس سب کا پنجاب کے مقامی انتخابات میں جو دھماکہ خیز اثر پڑنے جا رہا ہے اُس کی خبر شاید تحریک انصاف کو لانے والے ’’ فرشتوں ‘‘ کو بھی نہیں۔
اِس دور کے سب سے محتاط جوتشی عزیزی سہیل وڑائچ نے اپنی روایتی احتیاط کیساتھ عمران خان کی شکست کو 1990ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شکست سے مماثل قرار دیا ہے، لیکن محترمہ بینظیر بھٹو تو 1993ء اور پیپلز پارٹی 2008ء کے انتخابات میں اقتدار میں واپس آ گئی تھی اور اب پنجاب میں تحریک انصاف کے انہدام کی امیدمیں واپسی کیلئے پَر تول رہی ہے۔
محترم عمران خان صاحب کی جماعت مجھے اس طرح منتشر ہوتی دکھائی پڑتی ہے جس طرح کسی تباہ شدہ جہاز کا ملبہ اور شاید اگلا انتخاب اس کا آخری انتخاب ہو، جس سے قبل اس پارٹی کے جہاز پر چڑھائے گئے ابن الوقتوں کے انخلاکا ایسا منظر دکھائی پڑے گا جیسے ہمیں کابل کے ایئر پورٹ پر نظر آیا تھا۔
’’تبدیلی آئی نہیں ‘‘ واقعی آ چکی ہے۔ بس تجہیز و تدفین کے مناظر ترتیب پانے کو تیار ہیں۔ اب تک اپوزیشن کی کوئی پیش گوئی سچ ثابت نہیں بھی ہوئی ہے تو یہ ضرور درست ثابت ہوتی نظر آ رہی ہے کہ تحریک انصاف اپنے ہی بوجھ تلے اور خود خان صاحب کی قلا بازیوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے گی۔ اور میرا مشورہ ہے کہ وہ ’’ تبدیلی ‘‘ کے اِس ہائبرڈ انتظام اور اس کے منتظمین کی جعل سازیوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے دے۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا یہ کہنا کہ ’’جلد کچھ بڑا ہونیوالا ہے اور جو ہو گا دھماکہ ہو گا۔ ‘‘ لیکن ڈر یہ ہے کہ کوئی ’’بڑا دھماکہ ‘‘، ’’مغوی منتقلی ‘‘کو ہی نہ پٹری سے اتار دے۔
عظیم چینی حربی فلاسفر سن زو نے انتباہ کیا تھا کہ خود کے ساتھ ساتھ حریف کی ممکنہ حکمت اور طرزِ عمل کا ادراک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ’’ متبادل کی تلاش ‘‘ کی افواہوں میں ڈاکٹر آصف علی زرداری کی فارمولوں کی تلاش کو یاوہ گوئی قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی ایاز صادق کا یہ انکشاف کہ ’’ غیر سیاسی لوگ میاں نواز شریف سے مل رہے ہیں اور وہ جلد واپس آئیں گے۔‘‘کوئی طفلانہ خواہش نہیں اور خود عمران خان کا یہ گھبرایاہوا بیان کہ ’’نواز شریف کی نا اہلی ختم کرانے کے راستے نکالے جا رہے ہیں ‘‘ محض ہوائی نہیں ہے۔
اقامہ پہ تاحیات نااہلی کا مسئلہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عدالت عظمیٰ میں لے کر جا رہی ہے۔ تا حیات نا اہلی کی نا انصافی پہ انصاف ہونا کوئی انہونی نہیں ہو گی۔ عدالت عظمیٰ آخرکب تک اس کا بوجھ اپنے سر پر اٹھائے رکھے گی؟
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے جس مقدمہ میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دی گئی تھی، اس میں 40سے زیادہ صفحات پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللّٰہ کے ضمانت کے فیصلے پر جس طرف چیف جسٹس ثاقب نثار تلملائے تھے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس مقدمہ میں احتساب کے فیصلے کے پلے کچھ نہیں جس کا بوجھ عدالت عالیہ اپنے سر لے۔ ویسے بھی غیبی امداد کی فیضیابیاں اپنا فیض گنوا بیٹھیں۔ لیکن یہ جو ہمارے ٹیلی وژن پہ رونق افروز سرٹیفائیڈ ’’دفاعی تجزیہ نگاروں ‘‘کی فوج ظفر موج ہے وہ ’’دو کرپٹ خاندانوں ‘‘ کی سیاست پہ اپنے ہزیانی بیانیہ کو جس شد و مد سے بیان کر رہی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ ہر سیاسی انجینئرنگ یا مارشل مداخلت کی بار بار ناکامی کے باوجود پھر سے بے مغز جادوئی نسخوں پہ کام جاری ہے۔ بھلا آصف زرداری صاحب کے فارمولوں کی انہیں کیا ضرورت؟
اب سیاسی گیند میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کیساتھ ساتھ آصف زرداری کے کورٹس میں ہے اور ایمپائر کے پاس اپنے پٹے ہوئے نسخے پہ اصرار سے مریض (عمران حکومت ) کی حالت آئے روز بگڑتی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن بھی حکومت کو قبل از وقت گھر بھیجنے پہ بے قرار ہوئی جاتی ہے اور اپنے 23مارچ کے الٹی میٹم سے پہلے کسی پارلیمانی سازش کو گھڑنے میں مصروف ہے لیکن جمہوری منتقلی کیساتھ ساتھ اصولی منتقلی اقتدار کے تقاضے بھی بڑے ہیں۔
کیوں نہ عمران خان کو تحریک انصاف کی قبر کھودنے کا پورا پورا وقت دیا جائے اور سرپرستوں کی بیچارگی اور دیوالیہ پن کے پھل کو پکنے دیا جائے۔
اپوزیشن نے اگر کسی فوری تبدیلی کیلئے مقتدرہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو عمران خان سے بھی زیادہ مصیبت میں پھنس جائے گی۔ اِن ہاؤس تبدیلی کیلئے حالات خاصے تیار ہیں لیکن اپوزیشن قلیل عبوری عرصے پہ بھی راضی ہو گئی تو اُسی منجدھار میں پھنس جائے گی جس میں تحریک انصاف پھنسی ہوئی ہے یہ پرانی تنخواہ پہ ہی کام کرنے کا نسخہ ہے۔ لیکن اگر حقیقی سیاسی و آئینی و اداراتی تبدیلی چاہئے تو اپوزیشن ایک پائیدارمتبادل معاشی، آئینی و سیاسی پروگرام کیساتھ وسیع تر عوام الناس کو ایک نئے عوامی جمہوری ایجنڈے پہ متحرک کرے اور ان کے بڑے پیمانے پہ متحرک و منظم ہونے کا انتظار کرے۔
فلور کراسنگ سے اندر سے تبدیلی کی راہ موقع پرستانہ ہی نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے پہلے اعلان نامے اور میثاقِ جمہوریت سے غداری ہوگی۔ سول ملٹری تعلقات کی آئینی کایا پلٹ کیلئے ایک منظم عوامی جمہوری وفاقی تحریک چاہئے جو غیر آئینی آہنی شکنجوں کو توڑ دے اور ملک کو آئینی شاہراہ پہ لے آئے۔
پھر ایک سیاسی اسقاط کی تیاریاں ہیں، جمہوریت پسندوں اور آئین پسندوں کو ہوشیار رہنا چاہئے اور اس کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ ورنہ جمہوری خوابوں کا انجام تو ہم پہلے بھی کئی بار دیکھ چکے ہیں!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔