Time 29 دسمبر ، 2021
بلاگ

عوام کی قوت برداشت جواب دے گئی

اسلام آباد جاؤں اور دوستوں کی محفل نہ ہو، ممکن نہیں۔ تازہ تازہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج سامنے آئے تھے اور مولانا فضل الرحمن کی وہاں کامیابی زیر بحث تھی، ایک دوست بولا مہدی صاحب نے تو 14 نومبر 2019 کو اپنے کالم کا عنوان ہی’’ مولانا فضل الرحمن کامیاب ہوگئے ‘‘رکھا تھا اور وہ اب کامیاب بھی ہو گئے۔ 

میں بولا وہ صرف اب کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اس وقت بھی کامیاب ہی تھے سیاسی کامیابی مارشل لا کی مانند نہیں ہوتی کہ وہ عوام کے سامنے یہ يک دم آجائے اور اس کی تیاریاں بس ایک راز ہی ہوں بلکہ وہ تو مستقل کامیاب حکمت عملی اور کامیابیوں کے تسلسل کے ذریعے رَدپذیر ہوتی ہے ۔ 

انہوں نے اپنا مذہبی تشخص ایک حقیقت پسند اور معاملہ فہم شخص کا آزادی مارچ کی صورت میں قائم کیا تھا یہی کامیابی تھی اور حتمی کامیابی کی طرف بڑھنے کا راستہ بھی یہی تھا۔ ایم ایم اے کے قیام سے لیکر پی ڈی ایم کے سربراہ بننے تک انہوں نے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی جگہ لے لی ہے کہ وہ سب کے لیے قابل قبول ہیں۔

 اپنے حلقہ اثر پختون مذہبی افراد کا پرامن تشخص قائم کرنا، دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر آگے بڑھنا اور اپنے مؤقف پر واضح طور پر قائم رہنا ایسے اقدامات ہیں، جنہوں نے ان کو عوام میں مزید مقبول کر دیا، نواز شریف کی بھی یہی کیفیت ہے۔ وہ نتائج کی پروا کیے بنا اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے، وزارت عظمیٰ گئی، بھائی بیٹے بھتیجے سمیت جیل گئے، بیماری سے لڑے، جلاوطن ہیں مگر اپنے مؤقف میں رتی برابر تبدیلی نہیں لائے۔

 عوام میں بہادری کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے لہٰذا مزید مقبول ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اگلے انتخابات جب کبھی بھی ہوئے تو اس میں دو ہزار اٹھارہ والا کھیل دہرانے کے لیے اس وقت سے بھی کئی گنا زیادہ طاقت استعمال کرنی ہوگی کہ نواز شریف کا راستہ روکا جا سکے ۔ پے درپے ضمنی انتخابات کے نتائج اس بات کے گواہ ہیں کہ اگلا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔

 یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ کسی جگہ پر بیٹھ کر یہ منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ نواز شریف کا راستہ روکنے کے لئے پی ٹی آئی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ خانیوال کے انتخاب میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والی جماعتوں کے ساتھ کروا دی جائے تو نواز شریف کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ 

ایک دوست بولا ایسا ہوا تو کیا ہوگا ؟ مقبولیت کو سازشوں سے نہیں روکا جا سکتا جمہوری نظام میں روکنے کی ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں، اس کی مثال جاپان کے حالیہ انتخابات ہیں وہاں پر حکمران جماعت ایل ڈی پی کو کورونا کی وجہ سے زبردست مسائل کا سامنا تھا۔ انتخابات کا اعلان ہوا تو ایل ڈی پی کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کی غرض سےحزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت سی ڈی پی متحرک ہوگئی، اپنے خیال کے مطابق دو سو سترہ ایسے حلقے تلاش کیے جہاں اتحادی سیاست کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی تھی۔

 دیگر پانچ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کیا جس میں کمیونسٹ پارٹی بھی شامل تھی یعنی زبردست نظریاتی اختلاف کے باوجود ایل ڈی پی کو ہرانے کے لیےیہ سب یک جان ہوگئے اور دعویٰ کرنے لگے کہ ماضی کی نسبت کم ازکم 40 فیصد زیادہ نشستیں حاصل کرلیں گے۔ 

217 نشستوں پر مشترکہ امیدوار دیا کہ ووٹ تقسیم نہ ہو مگر انتخابات کا نتیجہ یہ نکلا کہ 465 کے ایوان میں صرف چھیانوے نشستیں حاصل کر سکے حالاں کہ گزشتہ انتخابات میں 110 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ایل ڈی پی اپنی ساتھی جماعت سمیت 293 نشستیں حاصل کر گئی کیونکہ مقبولیت، ایسے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ 

جاپان میں 217 نشستوں پر اتحاداور سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے جو حاصل ہوا وہی یہاں پر تحریک انصاف اور دیگر دو جماعتوں کے اتحاد اورسیٹ ایڈجسٹمنٹ سے حاصل ہوگا، اپنی نشستیں بھی بچا نہیں سکیں گے کیونکہ عوام ووٹ کا استعمال اپنے مسائل کے حل کے لیے کرتے ہیں، 

ان کا بد زبانی یا بلند آہنگ دعوؤں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ، معاشی حالات اس وقت جو ہو چکے ہیں اس کے اثرات سے عوام پوری طرح متاثر ہیں اور یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ نواز شریف نے اپنا سیاسی قد کاٹھ اسی سبب قائم کیا کہ ان کے پاس معیشت کو چلانے کی صلاحیت دیگر سیاسی جماعتوں بلکہ اداروں کے’’ چنتخب‘‘ افراد سے زیادہ ہے اور موجودہ حکومت کی معاشی کارکردگی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ عوام کی رائے درست ہے جو وہ بار بار ضمنی انتخابات میں ظاہر کر رہے ہیں کہ مسائل کا حل موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔

حال ہی میں جرمنی کے منتخب چانسلر اولف شلز جن کے چانسلر بننے کی پیش گوئی، میں نے ان ہی کالموں میں کی تھی کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بطور وزیر خزانہ بہت کامیاب تصور کیے جاتے تھے اپنی کامیاب وزارت خزانہ کے تجربے کے پیش نظر ہی جرمنی کے عوام نے حکومت میں ان کے آنے کو ایک معاشی بہتری کے طور پر دیکھاہے۔

 پاکستانی عوام کے سامنے بھی اس وقت یہی سوال موجود ہے کہ وہ کب تک روزبروز گرتی معیشت کو برداشت کریں گے اور حقیقت یہ ہے کہ اب قوت برداشت جواب دے گئی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔