03 نومبر ، 2012
کراچی…اعظم علی/نمائندہ خصوصی…سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے امن و امان از خود نوٹس کیس میں پیرول پر رہا کئے جانے والے 35 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ملزمان کو فوری گرفتار کرکے متعلقہ عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کی ہونے والی آئندہ سماعت میں مکمل طور پر پیش کی جائے کیونکہ سپریم کورٹ پیرول پر رہا کئے جانے والے ملزمان کے کیس کی سماعت جاری رکھے گی اور یہ کہ محکمہ جیل خانہ جات، محکمہ داخلہ، کراچی پولیس، محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، ٹریفک پولیس کی طرف سے کئے گئے تمام غیر قانونی کارروائیاں ختم کرکے سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کریں۔ ہفتے کی صبح جاری ہونے والے عبوری حکم میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پیرول پر رہا کئے گئے ملزمان کا کیس اگلی سماعت میں پھر جاری رہے گا لہٰذا محکمے اس سلسلے میں تمام تر جواز اور دستاویزات عدالت کے روبرو پیش کریں اور یہ کہ صوبائی حکومت کے محکموں نے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ایسے اقدامات کئے ہیں جس پر عدالت کو انتہائی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ، آئی جی سندھ، کی طرف سے کراچی میں ہونے والی ٹارگیٹ کلنگ کے بارے میں پیش کی گئی رپورٹ بتارہی ہے کہ کراچی میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ کراچی میں قتل و غارت گری کرنے والے افراد سے دانستہ طور پر آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹا جارہا۔ عبوری حکم کے چھٹے پیراگراف میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ سندھ پولیس اور محکمہ داخلہ کا کوئی بھی اعلیٰ افسر کراچی میں ہونے والی خونریزی سے فکرمند دکھائی نہیں دیتا بلکہ جواز پیش کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس اور رینجرز صرف گرفتاری اور چھاپے مار کر اپنی اہلیت ثابت کررہی ہیں مگر جرائم روکنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی جارہی جو کہ خوفناک صورتحال اختیار کرسکتی ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد پرمشتمل لارجر بنچ نے حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ، جیل خانہ جات نے پیرول پر رہا ہونے والے ملزمان کے بارے میں جو متضاد اور قوانین سے متصاد م جواز پیش کئے ہیں اس میں قتل اور ڈاکے کے ملزمان کی تعداد بھی مختلف ہے، ان ملزمان کو انتہائی پر اسرار انداز میں اس وقت پیرول پر رہا کردیا گیا جبکہ ان کی ضمانتیں بھی مسترد کی جاچکی تھیں۔ ان محکموں کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ یہ غیر قانونی اقدامات نئے نہیں بلکہ 2005ء سے جاری ہیں۔ عبوری حکم میں کہا گیا ہے کہ سندھ کی جیلوں کے قیدیوں کا نہ تو کوئی ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے بلکہ جو ریکارڈ محکموں کے پاس موجود ہے وہ بھی دانستہ طور پر سپریم کورٹ کے رو برو پیش نہیں کیا جارہا۔ پیرول پر رہا کئے جانے والے صرف ایک ہسٹری کنڈکٹ کو عدالت محض کاغذی کارروائی سمجھتی ہے جبکہ رہا کئے جانے والے دیگر ملزمان جن کے وارنٹ جاری کئے جارہے ہیں ان کے ہسٹری ٹکٹس یا تو تیار ہی نہیں ہوئے اگر ہوئے ہیں تو انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور یہ کہ محکمہ پولیس، محکمہ داخلہ اور محکمہ جیل خانہ جات یہ بھی نہیں جانتا کہ جن ملزمان کو رہا کیا گیا۔ انہوں نے رہا ہونے کے بعد کوئی اور جرم کیا ہے یا نہیں اور یہ کہ رہائی سے قبل ملک کے کسی بھی شخص سے اس بات کی ضمانت نہیں لی گئی کے ضرورت پڑنے پر انہیں پیش کردیا جائے گا، یہ عمل انتہائی حیرت انگیز اور تشویشناک ہے۔ سپر یم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ بغیر نمبر پلیٹ، فینسی نمبر پلیٹ اور غیر ملکی نمبر پلیٹوں والی گاڑیوں کو فوری طور پر ضبط کیاجائے اور کوئی گاڑی رجسٹریشن اور نمبر پلیٹ کے پورٹ سے نہیں نکلنی چاہئے، منی بسوں، کوچز اور بسوں کی چھتوں پر لگے ہوئے جنگلے فوری طور پر ہٹائے جائیں۔ قبل ازیں دوران سماعت جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف، جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد پرمشتمل لارجر بنچ نے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حکام کو حکم دیا کہ کراچی پورٹ میں اپنا دفتر کھولا جائے تاکہ بغیر رجسٹرڈ کوئی گاڑی شہر میں نہ آسکے، بغیر رجسٹرڈ گاڑیوں سے سنگین وارداتیں ہورہی ہیں اور افسران سکون سے بیٹھے ہیں۔ عدالت نے ڈی آئی جی ٹریفک خرم گلزار سے استفسار کیا کہ ٹریفک پولیس کو کیو ں نہیں پتہ کہ شہر میں کتنی گاڑیاں چل رہی ہیں۔ اس موقع پرسیکرٹری داخلہ وسیم احمد نے سپریم کورٹ کے روبرو ٹریفک کے مسائل پر بنائے گئے مسعودالرحمن کمیشن کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں کئی فلائی اوور، انڈر پاس بنا لئے جائیں مگر ٹریفک کے حالات خراب ہی ہوتے جائیں گے، کراچی کے سنگین ٹریفک کا صرف ایک ہی حل ہے کہ یہاں ماس ٹرانزٹ سسٹم کے تحت لائٹ الیکٹرک ٹرین کے چھ مجوزہ کوری ڈورز پر فوری کام شروع کیا جانا چاہئے، جس سے کراچی میں ٹریفک کے اژدھام میں کمی آئے گی، دنیا کے ہر بڑے شہر میں یہی کیا گیا ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ اس پرکون کام کرے گا، کیا وزیر اعلیٰ کو عدالت میں طلب کیا جائے؟ ایک سوال کے جواب میں سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ کراچی میں امن وامان کی بدترین صورتحال کی وجہ سے کوئی غیر ملکی ادارہ یہاں آکر ماس ٹرانزٹ منصوبے پر کام کرنے کو تیا ر نہیں۔