Time 23 مارچ ، 2022
پاکستان

عمران خان عدم اعتماد سے پہلے استعفیٰ دیدیں گے؟

جب نوازشریف پہلی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو گجرات کے چوہدریوں نے بغاوت کردی۔ چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئے۔ وزیراعظم جونیجو ہی نہیں ان کی کابینہ کے کئی ارکان بھی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروانے کے لئے کوشاں تھے۔

منصوبہ یہ تھا کہ وفاقی وزیرریلوے یوسف رضا گیلانی کو مخدوم زادہ حسن محمود کی وفات سے خالی ہونے والی صوبائی نشست پرکامیاب کروا کے نوازشریف کی جگہ وزیراعلیٰ بنوایا جائے۔ 

سازش پورے جوبن پر تھی،چوہدری شجاعت،نصراللہ دریشک اور ملک نعیم جیسے سیاستدان کھل کر نوازشریف کیخلاف میدان میں آچکے تھےلیکن جنرل ضیاالحق نے لاہور آکر کہہ دیا کہ نوازشریف کا کِلہ مضبوط ہے،یوں بساط پلٹ گئی اور نوازشریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اپنی موت آپ مرگئی۔ہاں البتہ ضیاالحق کے دور میں عدم اعتماد کی ایک تحریک ضرور کامیاب ہوئی۔

25 فروری 1985ء کو غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو قومی اسمبلی کے اسپیکر کی تلاش شروع ہوئی۔ضیا الحق کے قریبی ساتھی جنرل خالد محمود عارف اپنی کتاب Working with zia میں لکھتے ہیں کہ ”اسپیکر کے عہدے کے لئے صدر (ضیا الحق)کی نگاہ انتخاب خواجہ محمد صفدر (خواجہ آصف کے والد) پر تھی۔ وزیراعظم متذبذب تھے لیکن انہوں نے کوئی دوسرا نام تجویز نہ کیا (اراکین اسمبلی نے صدر اور وزیراعظم کے مابین پائی جانے والی اس عدم موافقت کو بھانپ لیاتھا۔ 

ایک گروپ نے سید فخر امام کا نام تجویز کیا جو ضیا کے ایک سابق وزیر تھے)ضیا نے ذاتی طور پر فخر امام کو ٹیلیفون کیا اور انہیں اپنا نام واپس لینے کو کہا لیکن فخر نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔پھر انہیں کثرت رائے سے قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کرلیا گیا۔ یہ انتخاب ضیا اور جونیجو کے لئے صدمہ سے کم نہ تھا۔“1985ء کے عام انتخابات میں عابدہ حسین اور فخر امام دونوں قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ 

عابدہ حسین کی خود نوشت ”Power Failure“کے مطابق جنرل ضیاالحق خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کو قومی اسمبلی کا اسپیکر نامزد کر چکے تھے مگر ایئر مارشل نور خان اورسابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد ایئر کموڈور خاقان عباسی نے سیدہ عابدہ حسین کو اسپیکرکا الیکشن لڑنے کو کہا۔چونکہ خاتون ہونے کے ناتے ان کی کامیابی کے امکانات کم تھے اس لئے سید فخر امام کے کاغذات نامزدگی جمع کروادیئے گئے۔

ضیاالحق کی طرف سے بار بار پیغام دیا جاتا رہا کہ فخر امام اس مقابلے سے دستبردار ہو جائیں۔آخری دن کرنل عابد کے دیرینہ دوست نواب زادہ عبدالغفور ہوتی ضیاالحق کا پیغام لیکر آئے مگر عابدہ حسین اور فخر امام نے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا۔خواجہ صفدر کو شیخ رشید،حامد ناصر چٹھہ،ڈاکٹر شیر افگن نیازی،الٰہی بخش سومرو،حاجی حنیف طیب،گوہر ایوب،شیخ روحیل اصغر،ایم پی بھنڈارا سمیت کئی اہم شخصیات کی تائید و حمایت حاصل تھی اور پھر جنرل ضیا الحق کا دست شفقت ان پر تھا مگر 22مارچ 1985 کو ہونے والے انتخابات میں خواجہ صفدر کو 111 ووٹ ملے جبکہ سید فخر امام 119 ووٹ لیکر اسپیکر منتخب ہوگئے۔ 

سید فخر امام کا بطور اسپیکر منتخب ہوجانا سیاسی بندوبست پریقین رکھنے والوں کے لیے بہت بڑی شکست تھی۔ ضیاالحق اس شکست کو نہ بھولے اور پھر فخر امام نے بطور اسپیکر اس بات کو بھولنے بھی نہ دیا۔ پہلے تو فخر امام نے رولنگ کے ذریعے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیدیا اور پھر وزیراعظم محمد خان جونیجو کی اہلیت پر سوالات اُٹھ گئے۔

انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے اور وہ امیدوار جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہو ں الیکشن لڑنے کے اہل نہ تھے مگر بعد ازاں وزیراعظم متحدہ مسلم لیگ کے نام سے بنائی گئی کنگز پارٹی کے صدر بن گئے تو اسپیکر قومی اسمبلی فخر امام سے رولنگ مانگی گئی جو انہوں نے محفوظ کرلی۔ چنانچہ اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور حامد ناصر چٹھہ قومی اسمبلی کے نئے اسپیکر بن گئے مگریہ تحریک کیسے منظور کروائی گئی، یہ کہانی بھی سیدہ عابدہ حسین نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں بیان کی ہے۔

عابدہ حسین لکھتی ہیں،میں نے شیخو پورہ سے ایم این اے ملک سرفراز سے بات کی تو اس نے کہا مجھے صاف گوئی سے کام لینا چاہئے۔ جنرل ضیاالحق آج صبح چیمبر میں تشریف لائے اور ایم این اے ہاسٹل سے کم ازکم پچاس ارکان پارلیمنٹ کو بلایا گیا۔ ہم میں سے ہر ایک سے الگ الگ ملاقات کے دوران جنرل ضٰیاالحق نے ایک ہی بات کی کہ اگر تم نے اسپیکر کو ووٹ دیکر اسے بچانے کی کوشش کی اور وہ دوبارہ منتخب ہوگیا تو میں اسمبلی تحلیل کردوں گا۔ بعد میں مشاورت کے بعد ہم نے اسپیکر کے بجائے اسمبلی کو بچانے کا فیصلہ کیا۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کا امکان ہو تو استعفیٰ دیکر عزت سے گھر جانے کو ترجیح دی جاتی ہے؟

مثال کے طور پر جنرل پرویز مشرف نے مواخذے کا سامنا کرنے کے بجائے گھر جانا مناسب سمجھا۔جنوری 2018ء میں وزیراعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد آئی یا پھر اکتوبر2021ء میں جام کمال کے خلاف نو کانفیڈنس کی تحریک جمع کروائی گئی تو انہوں نے سامنا کرنے کے بجائے استعفیٰ دیکر گھر جانا مناسب خیال کیا۔اگر آج بھی جنرل ضیاالحق کے جانشین کہہ دیں کہ عمران خان کا کِلہ مضبوط ہے یا پھر ارکان اسمبلی کو اسی طرح کا الٹی میٹم دیا جائے جس طرح سید فخر امام کے خلاف عدم اعتماد کے وقت ضیاالحق نے دیا تھا،تو وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوسکتی ہے لیکن حالات بدل چکے ہیں۔

عمران خان کا کِلہ نہایت کمزور ہے کیونکہ وہ نیوٹرل ہونے والوں کو جانور کا طعنہ دے چکے ہیں۔میرا خیال ہے یہ سیاسی میچ آخری بال تک نہیں جائے گا،کپتان کو معلوم ہے کہ امپائر کو ساتھ ملائے بغیر نہیں جیتا جا سکتا۔انہوں نے25مارچ 1992ء کو کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور اب25مارچ 2022ء کو ان کی سیاسی اننگز ختم ہورہی ہےلیکن اگروہ چاہیں توفوری طور پر جانے کے بجائے آخری گیند پر کلین بولڈ ہو کر بھی پویلین لوٹ سکتے ہیں۔

مزید خبریں :