25 مارچ ، 2022
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے جاری ہوا، کیوں نہ اسے کالعدم قرار دیدیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس پر سماعت کے دوران کہا ہےکہ اس نکتے پر مطمئن کریں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جا چکا تھا تو آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت صدارتی آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا؟ کیا صدر کے آرڈیننس جاری کرنے کے آئینی اختیار کا درست استعمال ہوا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 20میں ترمیم پر بھی دلائل دیں کہ ہتک عزت کو فوجداری کیوں بنایا جائے؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان سول رائٹس کے عالمی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے، آپ ان کے خلاف جا رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پرسماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ترمیمی آرڈیننس بظاہر آئین کے آرٹیکل 89 کی خلاف ورزی میں جاری ہوا، سیاسی مباحثے ختم کرنے کیلئے پیکا کی سیکشن 20کا غلط استعمال ہو رہا ہے، جمہوری ملک میں سیلف سنسر شپ کیسے ہو سکتی ہے؟ ایف آئی اے کی رپورٹ سے پتہ چلا کہ وہ تو انٹرنیٹ پر صحافیوں کی سرویلنس کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہتک عزت کے کیس میں ایف آئی اے کو براہ راست گرفتاری کا اختیار دے دیا، پبلک آفس ہولڈر سوشل میڈیا سے پریشان کیوں ہیں؟ کیوں نا آرڈیننس کالعدم قراردے دیاجائے؟
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ اداروں کی ساکھ کی حفاظت کرنا ہوتی ہے، جیسا کہ ججز خود شکایت درج نہیں کرا سکتے لیکن اس ترمیم کے ذریعے رجسٹرار کو شکایت درج کرانے کا اہل بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت عدلیہ کے بارے میں پریشان نہ ہو، ججز خوفزدہ نہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مثبت تنقید پر کوئی اعتراض نہیں، یہ کون طے کرے گا کہ تنقید مثبت ہے یا منفی؟ تنقید سے تو کسی کو بھی نہیں ڈرنا چاہیے۔
اس موقع پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ فیک نیوز کا حل زیادہ سے زیادہ سچ بولنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہ کہاسوشل میڈیا سے کس کو خطرہ ہے؟ اگرمعاشرے کے اقدارخراب ہیں تو کیا آئین ختم کر دیں؟
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی۔