02 اپریل ، 2022
اقتدار ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس کے لیے انہوں نے ہر اصول کی قربانی دی لیکن اب عمران خان کو وزیراعظم ہائوس کی ہر دیوار پر یہ لکھا نظرآرہا ہے کہ انہیں یہاں سے رخصت ہونا اور اس کے بعد اڈیالہ جانا یا پھر لندن فرار ہونا ہے۔ چنانچہ انہوں نے مذہب فروشی کے بعد اب ایک نئی کمپنی کھول لی ہے۔ وہ کمپنی یہ ہے کہ بھٹو کی طرح مجھے امریکہ اقتدار سے نکالنا چاہتا ہے لیکن لکھ کر رکھ لیں کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔
بحیثیت مجموعی پاکستانی بے وقوف ہیں اور نہ امریکی۔ وہ جانتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں عمران خان کا اتنا ہی کردار ہے جتنا کہ پرویز خٹک کا دفاع میں ہے۔ ہاں البتہ چونکہ انہیں وزیراعظم اور وزیر دفاع کی کرسیوں پر بٹھایا گیا ہے، اس لیے ان کی زبانیں چلنے میں افراط و تفریط سے پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے، کسی اور ملک کو نہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا۔ شاہ فیصل کے ساتھ مل کر امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے خلاف اسلامی ممالک کا بلاک بنارہے تھے اور اگرسوویت جنگ کا آغاز نہ ہوتا تو وہ سوویت یونین کے ساتھ بھی تعاون کا سلسلہ آگے بڑھانا چاہتے.
لیکن عمران خان نے روس کے ساتھ اسٹرٹیجک معاملات میں کوئی تعاون نہیں کیا۔ جس پائپ لائن کے معاہدے پر دوبارہ دستخط ہوئے، اس کے ایم او یو پر نواز شریف کے دور (2015) میں دستخط ہوئے۔ روس کا پہلا دورہ زرداری نے کیا تھا اور پھر سب سے زیادہ دورے ہمارے آرمی چیفس نے کئے ہیں۔
یوکرین کے معاملے پر پاکستان نیوٹرل ہے جبکہ انڈیا، چین اور کئی دیگر ممالک اس میں بڑی حد تک روس کے ہمنوا ہیں۔ امریکہ اس بنیاد پر حکومت گرانا چاہتا تو پھر مودی کی حکومت کیوں نہ گراتا؟ ہاں یورپی یونین اور امریکہ نے انڈیا سے یوکرین سے متعلق اس کی پالیسی پر سفارتی ذرائع سے کھل کر احتجاج کیا۔
عمران خان نیازی نے جس چیز (امریکہ میں پاکستانی سفیر) کے مراسلے کی آڑ لی ہے، اس کا پاکستان کو تو بہت نقصان ہوگا لیکن یہ چورن زیادہ عرصہ بکنے والا نہیں۔مختلف ملکوں میں تعینات سفیر اسی طرح کے مراسلے روز بھیجتے ہیں اور ان میں اسی طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔
امریکہ میں تعینات سفیر اسی طرح کے امریکیوں کے غصے پر مشتمل مراسلے ماضی کی حکومتوں کو بھی سینکڑوں کی تعداد میں ارسال کر چکے ہیں بلکہ جب آصف زرداری پہلی مرتبہ روس جارہے تھے تو خود ہلیری کلنٹن نے انہیں فون کرکے منع کیا تھا لیکن وہ پھر بھی روس گئے۔
اسی طرح جب نواز شریف ایٹمی دھماکے کررہے تھے تو امریکی صدر خود رابطے کرکے ایک طرف لالچ دے رہے تھے اور دوسری طرف بھاری رقم کی پیشکش کررہے تھے۔ یہ معمول کی چیزیں ہیں اور امریکہ کی ناراضی ریاست پاکستان سے ہے نہ کہ عمران خان سے کیونکہ امریکی جانتے ہیں کہ افغان پالیسی یا پھر چین کے ساتھ دوستی اور تعاون میں عمران خان کا رتی برابر کردار نہیں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ زرداری اور نواز شریف اس لیے مغرب کو ناں نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے اثاثہ جات مغرب میں ہیں (واضح رہے کہ وہ امریکہ میں نہیں بلکہ یورپی ممالک میں ہیں) اب چینی جانتے ہیں کہ انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ اولاد ہے اور عمران خان کی اولاد برطانیہ میں گولڈ اسمتھ کے گھر جوان ہوئی۔
روس اور چین وغیرہ کے لحاظ سے برطانیہ امریکہ کا ہم زبان ہے۔ یوں اگر نواز شریف اور زرداری مالی اثاثہ جات کی وجہ سے ناں نہیں کرسکتے تو پھر عمران خان کیسے انہیں ناں کرسکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زرداری یا نواز شریف نے کسی پاکستانی نژاد کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کی انتخابی مہم نہیں چلائی بلکہ یہ سعادت عمران خان کو حاصل ہوئی۔
اسی طرح چینی یہ بھی جانتے ہیں کہ عمران خان کی ٹیم کے اہم لوگ یعنی زلفی بخاری وغیرہ برطانیہ سے،رضاباقر اورتابش گوہر کینیڈا جبکہ شہباز گل، ندیم بابر، حفیظ شیخ اور معید یوسف امریکہ سےپاکستان آکر عمرانی حکومتی ٹیم کاحصہ بنے ہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وزارت کا کوئی معاملہ برطانیہ سے آئی ہوئی ملیکا بخاری سے پوشیدہ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کا یہ دعویٰ کہ میری حکومت کو امریکہ ختم کرنا چاہتا ہے بعینہ ایسا ہے کہ جیسے ہمارے دوست علامہ طاہر اشرفی کہیں کہ سعودی عرب کی حکومت ان کو حکومت سے نکالنا چاہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اصل کہانی ہے کیا؟ اصل کہانی یہ ہے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر، جنہیں اب برسلز بھیج دیا گیا ہے، نے ایک کیفے میں امریکی محکمہ خارجہ کے تھرڈ سیکرٹری سے ملاقات کی۔
اس میں سفیر صاحب نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو نولفٹ کرنے کی وجوہات دریافت کیں۔ جس کے جواب میں انہوں نے پاکستانی ریاست ( نہ کہ حکومت ) کی پالیسیوں کا رونا رویا ہوگا۔ ساتھ ہی شاید یہ کہا ہو کہ عمران خان کی حکومت کی پالیسیوں کی کوئی سمت معلوم نہیں(واضح رہے کہ یہ شکایت سعودی عرب، چین، ترکی اور کئی اور دوست ممالک کو بھی ہے)۔
شاید اس نے یہ کہا ہو کہ عدم اعتماد کے بعد اگر نئی حکومت آئی اور اس کی خارجہ پالیسی کی سمت معلوم ہوئی تو پھر امریکہ اس سے کام کرنے کے بارے میں سوچے گا۔
اس گفتگو اور دیگر امریکی حکام کے ساتھ الوداعی ملاقات میں انہوں نے جو تاثر لیا، اس کے منٹس یا نچوڑ ایک کیبل کی صورت میں بھجوا دیئے۔ جس کے بارے میں شروع میں عمران خان اور ان کے ترجمانوں نے یہ تاثر دیا کہ ہمیں براہ راست دھمکی دی گئی ہے یعنی کہ امریکی عہدیدار نے براہ راست خط لکھ کر دھمکی دی ہے۔
ہمیں اس وقت اصل کہانی معلوم ہوئی لیکن یہ نہیں چاہتے تھے کہ ملک یا سفیر کا نام سامنے آئے کیونکہ اس کا پاکستان کو نقصان ہوگا اس لیے اس جھوٹ کا جواب میں نے 28مارچ کو اپنے ایک ٹویٹ کی صورت میں دیا جس میں یہ عرض کیا کہ یہ خط کسی امریکی عہدیدار کا نہیں اور اگر حکومت یہ ثابت کردے کہ خط کسی امریکی مغربی عہدیدار نے بھیجا ہے تو میں صحافت چھوڑ دوں گا۔
اب عمران خان خود کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکی عہدیدار کا خط نہیں بلکہ پاکستانی سفیر کا مراسلہ ہے جس سے میری بات کی تصدیق ہورہی ہے لیکن عمران خان اور ان کے ترجمانوں کی ڈھٹائی ملاحظہ کریں کہ دو دن سے میرے خلاف ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ چلارہے ہیں کہ سلیم صافی صحافت چھوڑ دو۔
گویا جھوٹے عمران خان اور ان کے ترجمان ثابت ہوئے اور صحافت چھوڑنے کا مطالبہ مجھ سے کیا جارہا ہے۔ الحمدللہ میں پی ٹی آئی کی ان حرکتوں کا اتنا عادی ہوچکا ہوں کہ ان کا مجھ پر رتی بھر اثر نہیں ہوتا لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ بھی کرلیں عمران خان کی یہ امریکہ والی کمپنی نہیں چلے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔