04 اپریل ، 2022
(گزشتہ سے پیوستہ)
کوثر نیازی کا خیال ہے کہ بھٹو نے نہایت خوبصورتی سے دنیا کو ری پراسیسنگ پلانٹ کی بحث میں الجھائے رکھا اور اس دوران ایٹمی پروگرام پر خاموشی سے پیشرفت ہوتی رہی۔ وہ ’’اور لائن کٹ گئی ‘‘میں لکھتے ہیں :’’مسٹر بھٹو کی یہی منشا و مرضی تھی کہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے کام کو ساری دنیا سے چھپا کر اس کی توجہ ری پراسیسنگ پلانٹ کی خریداری پر مرکوز کرادی جائے اور اس نمائشی گھوڑے کے مسئلے پر اتنی شدت سے اسٹینڈ لیا جائے کہ امریکہ خود ہی فرانس پر دبائو ڈال کر اس معاہدے کی تنسیخ کرادے اور یوں جو تاوان پاکستان کو دینا پڑے، وہ اُلٹا پاکستان کو فرانس دے۔کارٹر کو احمق بنانے کے چکر میں بھٹو ہر حد سے گزر گئے اور دوسری طرف کارٹر نے بھی اپنے ’دہقانی مزاج‘کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر قیمت پر بھٹو حکومت کے خاتمے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘
جب بھٹو عالمی محاذ پر یہ چومکھی لڑائی لڑ رہے تھے تو ان کے خلاف داخلی محاذ پر پرتشدد تحریک کا آغاز ہو گیا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ PNA کی تحریک کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے کیونکہ انہوں نے ایٹمی پروگرام سے متعلق امریکی ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا تھا جس پر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے انہیں ’نشانِ عبرت‘بنانے کی دھمکی دی۔انہوں نے 28اپریل 1977ء کی شام پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی گئی تقریر کے دوران امریکہ کو ’ہاتھی ‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہاتھی مجھ سے ناراض ہے کیونکہ ہم نے عربوں کو ہتھیار سپلائی کئے،ہم نے ویت نام کے معاملے پر اس کا ساتھ نہیں دیا،ہم نے ایٹمی پلانٹ پر قومی مفاد کے مطابق موقف اختیار کیا۔
بھٹو نے جذبات سے رُندھی ہوئی آواز میں کہا ہاتھی کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے، میرا یہ جرم معاف نہیں کیا گیا، وہ میرا خون مانگتے ہیں کیونکہ میں ہی پاکستان میں استحکام اور یکجہتی کی علامت ہوں۔ ایک غیر ملکی مشن کے دو اہلکار 12مارچ کو ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی بے پایاں مسرت کو نہ چھپا سکے اور خوشی کے مارے اچھلتے ہوئے کہا، پارٹی ختم ہوگئی ہے اور وہ بھی ختم ہوگیا ہے۔لیکن حضرات! پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی اور وہ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک اس عظیم قوم کے لئے میرا مشن پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا۔ میں خود تو ایک عاجز اور بے بس انسان ہوں لیکن یہ کرسی جس پر میں بیٹھا ہوں، بہت طاقتور ہے، مجھے آسانی سے کوئی اس کرسی سے نہیں ہٹا سکتا۔‘‘
لیکن یہ مضبوط کرسی ڈگمگا گئی اور بھٹو کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔کیابھٹو کے خلاف چل رہی تحریک کو غیر ملکی تائید و حمایت حاصل تھی ؟واقفان حال بتاتے ہیں کہ نہ صرف غیر ملکی ہاتھ بہت سرگرم تھا بلکہ چمن کی تباہی میں ان باغبانوں کا ہاتھ بھی ہے جو برق و شرر سے ملے ہوئے تھے۔ بریگیڈیئر ارشاد ترمذی جو ان دنوںISI میں تعینات تھے ۔ ان کی کتاب ’Profiles of Intelligence ‘جس کا اردو ترجمہ ’’حساس ادارے ‘کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’جن دنوں پی این اے کی تحریک عروج پر تھی، غیر ملکیوں کا ایک بڑا ریلا جن میں زیادہ تعداد یہود ونصاریٰ کی تھی، صحافیوں، فوٹو گرافروں، رپورٹروں اور سیاسی مبصرین کے روپ میں پاکستان آپہنچا۔بظاہر یہ لوگ کیمروں اور ٹیپ ریکارڈروں سے’ مسلح‘ تھے مگر درپردہ ان کے مقاصد کچھ اور تھے۔ ان کے پاس ڈالروں کی کوئی کمی نہ تھی۔مارکیٹ میں امریکی ڈالروں کا سیلاب آچکا تھا اور لوگ دھڑا دھڑ امریکی ڈالر کے عوض پاکستانی روپیہ خرید رہے تھے۔ اس حقیقت کو جاننا اب قطعی مشکل نہیں کہ یہ سیلاب بلا کہاں سے آیا تھا اور اس کے پیچھے کیا خفیہ مضمرات تھے۔ 30 لاکھ روپے کا ایک چیک جو ایک بیرونی حکومت کی طرف سے مذہبی جماعت کے ایک سربراہ کے نام آیا تھا، حکومتی کارندوں کے ہاتھ لگ گیا ‘‘۔
ارشاد ترمذی نے اسی کتاب میں واشنگٹن سے بھیجا گیا ایک خفیہ ٹیلی گرافک پیغام ہاتھ لگنے کا ذکر بھی کیا ہے جس میں نہ صرف بعض فوجی افسروں کی ریٹائرمنٹ اور تبادلوں کا ذکر تھا بلکہ یہ ہدایات بھی دی گئی تھیں کہ بھٹو کی پھانسی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے یہ پیغام ڈی جی جنرل ریاض کو دکھایا اور پھر اس کی ایک کاپی جنرل ضیا الحق کو بھجوا دی گئی جو بھٹو کی پھانسی کا حکم بلا چون وچرا بجا لائے۔
مارشل لا لگ گیا تو PNA رہنمائوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ مگر بھٹو ایٹمی پروگرام سے متعلق اس قدر حساس تھے کہ جب انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کی تو تب بھی انہوں نے ری پراسیسنگ پلانٹ کے تناظر میں امریکہ سے مخاصمت کا ذکر تو کیا مگر کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام لینے سے گریز کیا۔ اور پھر 4 اپریل 1979کو بھٹو کو پھانسی دیکر بظاہر عبرت کا نشان بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل کمال (ر)متین الدین اپنی کتاب The Nuclearization Of South Asiaمیں لکھتے ہیں:’’بھارتی مصنفین کے دعوئوں کے برعکس پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغٖاز ایک سویلین حکومت کے دور میں ہوا اور فوج کا نیوکلیئر پروگرام سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔یہاں تک کہ 1977ء میں ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔اگر فوجی انقلاب کے نتیجے میں بھٹو کو نہ ہٹا دیا جاتا تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام بدستور سویلین ہاتھوں میں ہی رہتا‘‘۔
بھٹو کو 4 اپریل کو پھانسی دی گئی اور 3 اپریل کو عمران خان کی سیاست ختم ہونے جارہی ہے،ان کے چاہنے والے قتل کئے جانے کے خدشات کا ذکر بھی کر رہے ہیں گویا بھٹو سے تشبیہ دیکر عمران خان کو اسی انجام سے دوچار کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔مگر انہیں کیا معلوم کہ بھٹو بننا اتنا آسان نہیں۔ بھٹو نے دولخت ہونے والے پاکستان کو ایک بار پھر قدموں پہ کھڑا کیا۔
فوجیوں سمیت 90 ہزار قیدی بھارت کی قید سے چھڑوائے،مسلم حکمرانوں کو لاہور میں جمع کرکے مسلم بلاک بنانے کی کوشش کی، امریکہ کی مخالفت مول لیکر ایٹمی پروگرام شروع کیا۔عمران خان نے آخر ایسا کیا کیا ہے کہ امریکہ انہیں ’خطر ناک‘سمجھے؟ایک اور واضح فرق یہ ہے کہ جب بھٹو برسراقتدار تھے تو امریکہ کے قصر سفید پر ہاتھی (ری پبلکن پارٹی)کی اجارہ داری تھی مگر عمران خان کے عہد میں وہاں گدھے (ڈیموکریٹک پارٹی)کی حکمرانی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔