05 اپریل ، 2022
3 اپریل 2022 کا دِن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ جس کی وجہ ایک سویلین اور جمہوری حکومت کی طرف سے غیر آئینی اقدامات ہیں۔ اس دن قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تھی۔
اجلاس شروع ہوتے ہی ڈپٹی اسپیکر نے وزیر قانون کو بولنے کا موقع دیا۔ انہوں نے اپوزیشن پر غیرملکی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے کلاز ون کے تحت اپوزیشن کی تحریک کو مسترد کیا جائے۔
ڈپٹی اسپیکر نے فوراً ایک کاغذ نکال کر اس پر لکھی تحریر پڑھنی شروع کی جو پہلے سے ہی تیار تھی یہ اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے رولنگ تھی۔
جس میں مذکورہ بالا آرٹیکل کے تحت اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرتے ہوئے اجلاس کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
ڈپٹی اسپیکر نے اس معاملے کی نہ تو کوئی چھان بین کی نہ اس پر بحث کرائی۔
اس کے فوری بعد وزیراعظم نے پہلے سے تیار شدہ ریکارڈڈ خطاب میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور 90 دن میں انتخابات کا اعلان کیا۔ اس کے چند منٹ بعد صدر مملکت نے اس کی توثیق کردی۔
گویا کہ یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا۔ اس کے بعد اپوزیشن نے ان اقدامات کےخلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں پٹیشن دائر کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس پر ازخود نوٹس لیا اور اس کے لیے پانچ رکنی لاجر بینچ تشکیل دیتے ہوئے تمام متعلقین کو 4 اپریل کو سماعت مقرر کرتے ہوئے طلب کرلیا۔ ممکن ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہو۔
آئین کا آرٹیکل 5 کوئی آسان آرٹیکل نہیں ہے۔ یہ غیر ملکی سازش جو پاکستان کے خلاف ہو اور اس میں جو پاکستانی ملوث ہو، سے متعلق ہے۔
اس کے بعد ملوث فرد یا افراد کو آئین کے آرٹیکل 6 کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کے تحت یہ غداری کے زمرے میں آتا ہے اور ملوث فرد یا افراد کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔
اب جب اسپیکر نے وزیر قانون کے الزام کے تحت مندرجہ بالا رولنگ آرٹیکل 5 کے تحت دی ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کے تمام لوگ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازش میں ملوث اور ملک کے غدار ہیں اس لیے آرٹیکل 6 کے تحت سزا کے مستحق ہیں۔
لیکن یہ اتنا آسان نہیں یہ محض ایک سفیر کے تجزیہ، جس میں مبینہ طور پر ردوبدل بھی کیا گیا ہے، پر ہے۔ معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے اس پر رائے تو نہیں دی جاسکتی لیکن اپوزیشن جماعتوں اور ان کے ساتھ دیگر حامی اراکین قومی اسمبلی پر اتنے بڑے الزام کے مصدقہ اور مستند ثبوت بھی تو فراہم کرنے ہوں گے۔
یہ تو سپریم کورٹ کا اختیار ہے وہ جو بھی ملک کے لیے بہتر سمجھے گی یقیناً وہی فیصلہ ہوگا لیکن ابھی یا مستقبل میں یہ ثبوت فراہم کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر آئین کی خلاف ورزی کی صورت میں یہ معاملہ الٹ بھی ہوسکتا ہے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ عمران خان اور اس سارے عمل میں شامل لوگوں کے گلے بھی پڑ سکتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت نے جو اقدامات کئے ان کے مابعد اثرات پر غور ہی نہیں کیا تھا۔ پتہ نہیں مشورہ دینے والوں کے اصل مقاصد کیا تھے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوگا۔ لیکن ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ گزشتہ روز کے حکومتی اقدامات اور کھل کر امریکہ پر پاکستان کے خلاف سازش کے الزامات سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہونے کا امکان ہے۔ نیز بین الاقوامی تعلقات پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
آگےجو بھی حکومت ہوگی اس کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ جن میں معاشی اور تجارتی مشکلات سرفہرست ہوں گی۔
حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں کبھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے ملک کمزور اور تنہائی کاشکار ہوا ور معاشی مشکلات پیش آنے کا خدشہ ہو۔ پاکستان اور خطے کے حالات سب کے سامنے ہیں۔
اس وقت ملک کو معاشی مشکلات درپیش ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے بجائے یہ چور، وہ چور، یہ ڈاکو وہ لٹیرا پر سارا وقت ضائع کردیا۔ کسی کے پیچھے نیب تو کسی کے پیچھے ایف آئی اے کو لگایا۔
اس تمام عرصے میں ملک بے چینی اور بے یقینی کا شکار رہا۔ فائدہ شاید چند لوگوں کو ہوا۔ ان کے بعض ترجمان اور چند ایک وزرا نے سرعام ایسی دشنام طرازی کا بازار گرم رکھا کہ الامان۔
غربت کو مصنوعی طریقہ سے اور کمپنی کی مشہوری کے لیے ختم کرنے کے بلانتائج اقدامات کئے۔ مثلاً لنگر خانے اور پناہ گاہیں۔ ان میں بھی کرپشن کی اطلاعات ہیں۔
ان کے دور میں چینی، گندم، گیس، ایک ارب درختوںاور سڑکوں کے کئی اسکینڈل سامنے آئے۔ چند روز شور شرابہ ہوا اور پھر سب کچھ ٹھپ۔ بعض ملوث افراد اہم عہدوں پر براجمان وزیراعظم کے دائیں بائیں رہے۔
پنجاب میں مبینہ طور پر چھوٹے بڑے عہدوں پر تعیناتیوں اور تبادلوں پر منڈیاں لگی رہیں۔ شاید آگے ایسی حکومت آئے گی جو ان ساری وارداتوں اور ان میں ملوث افراد سے پوچھ گچھ کرے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔