Time 10 اپریل ، 2022
پاکستان

اپنے اختلافات خود حل کریں ہمیں نہ دھکیلیں، اسٹیبلشمنٹ کا سیاستدانوں کو واضح پیغام

وزیراعظم نے این آر او نہیں مانگا لیکن 90 روز میں انتخابات کے لیے اپوزیشن کو راضی کرنے کا کہا تھا: ذرائع۔ فوٹو: فائل
وزیراعظم نے این آر او نہیں مانگا لیکن 90 روز میں انتخابات کے لیے اپوزیشن کو راضی کرنے کا کہا تھا: ذرائع۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں کو واضح پیغام دیا تھا کہ وہ خود ایک دوسرے سے بات کریں اور اپنے مسائل خود حل کریں، اسٹیبلشمنٹ کو اس میں نہ دھکیلیں۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے جمعے کی رات کو اپنے کچھ وزراء کو اسٹیبلشمنٹ کے کچھ اہم افراد کے پاس بھیج کر اس ضمن میں مدد طلب کی تھی کہ وہ اپوزیشن کو وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر قبل از وقت انتخابات کے لیے راضی کرنے میں مدد کریں لیکن انہیں بتایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرسکتی اور انہیں تجویز دی گئی کہ سیاست دانوں سے خود ہی مل کر مسائل حل کریں، اسٹیبلشمنٹ کے اہم فرد نے انہیں کہا کہ سیاست دانوں کو آپس میں بات کرنی چاہیے، ہمیں اس معاملے میں شامل نہ کیا جائے۔

باوثوق ذرائع نے دی نیوز کو تصدیق کی ہے کہ کچھ وفاقی وزراء نے اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم رکن سے ملاقات کی تھی لیکن اس نے دو ٹوک انداز میں اس بات کو مسترد کر دیا کہ عمران خان اپنے لیے این آر او لے رہے تھے۔

تاہم اپوزیشن ذرائع کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ اہم ارکان نے وزیراعظم عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کی، اس ملاقات میں اپوزیشن ذرائع کے خیال میں وزیراعظم نے اسٹیبلشمنٹ سے یہ ضمانت طلب کی تھی کہ اگر وہ استعفیٰ دیتے ہیں تو مستقبل کی حکومت (اپوزیشن جماعتوں کی) ان کے اور ان کی حکومت کے خلاف نیب مقدمات نہیں بنائے گی۔

کئی صحافیوں نے بھی سوشل میڈیا پر ہفتے کی رات یہی دعویٰ کیا لیکن باوثوق ذرائع نے اس نمائندے کو بتایا ہے کہ یہ بالکل غلط بات ہے، اسٹیبلشمنٹ کے اہم رکن نے وزیراعظم سے جمعے کی رات بنی گالہ میں ملاقات نہیں کی بلکہ کچھ وزراء نے ہفتے کو راولپنڈی میں اہم اسٹیبلشمنٹ رکن سے ملاقات کی اور ان سے اس ضمن میں مدد طلب کی کہ وہ وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر اپوزیشن کو 90 یوم کے اندر انتخابات کے لیے راضی کریں۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ وہاں کسی قسم کے این آر او یا عمران خان کے خلاف کسی قسم کا کیس بنائے جانے سے متعلق کوئی ضمانت طلب نہیں کی گئی، وزراء کو کہا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے کسی سیاسی تنازع میں مداخلت نہیں کرے گی، اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھا جائے اور سیاسی جماعتوں سے اختلافات خود حل کریں، اس ضمن میں سیاست دان آپس میں بات کریں اور ہمیں اس معاملے میں شامل نہ کیا جائے۔

اس سے قبل حکومت کی درخواست پر اسٹیبلشمنٹ پہلے وزیراعظم سے ملی تھی اور پھر اپوزیشن سے ملاقات کی تھی تاکہ دونوں کے درمیان اتفاق رائے میں مدد کی جائے تاکہ سیاسی استحکام قائم ہو سکے تاہم، انہیں اس وقت حیرانی ہوئی کہ جب وزیراعظم نے ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اپوزیشن کا پیغام پہنچایا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کروائے جائیں۔

وزیراعظم کے دعویٰ کے جواب میں اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اپوزیشن کی جانب سے تین پیشکش کیں تاہم، اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن کی جانب سے کوئی پیشکش نہیں کی تھی بلکہ سول حکومت نے اعلیٰ حکام کو فون کیا تھا اور  جاری سیاسی صورت حال پر بات کرنے کا کہا تھا۔

اس موقع پر اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی تھی اور حکومتی پیشکش ان کے سامنے رکھی تھی کہ وزیراعظم مستعفی ہوں گے اور قومی اسمبلی کو اس صورت تحلیل کریں گے جب اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے گی۔

اپوزیشن رہنماؤں کو بتایا گیا کہ اگر وہ متفق ہوں تو ملک کو ممکنہ سیاسی بحران سے چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے تاہم، اپوزیشن کسی بھی صورت تحریک عدم اعتماد واپس لینے کو تیار نہیں تھی۔ اب اپوزیشن کی جانب سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ شروع کردیا ہے کہ وہ آگے آکر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مسائل حل کرائیں۔

نوٹ: یہ خبر 10 اپریل 2022 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے۔

مزید خبریں :