11 اپریل ، 2022
نامور صحافی اور سینئر تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنتے ہی جس سب سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا وہ گزشتہ حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا معاہدہ ہے۔
جیو نیوز کے مارننگ شو جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ایونٹس ابھی ختم نہیں ہوئے، شہباز شریف جب کل وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے تو انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی وزیراعظم کا الیکشن ہو گا اور شہباز شریف جب اگلے روز وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے تو پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی استعفیٰ دیدیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جو بھی ہوا ہے یہ ایک عظیم المیہ ہے کہ ایک ہیرو تھا اس نے پہلے 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا اور پھر 1997 میں کینسر اسپتال بنایا، وہ سمجھتا تھا کہ میں نے کینسر اسپتال بنا دیا ہے تو میں نیا پاکستان بھی بنا دوں گا، پھر اس نے 1997 کا الیکشن لڑا تو ضمانت ضبط ہو گئی، 2002 میں ایک سیٹ ملی، 2013 میں الیکشن لڑا تو اکثریت نہ ملی۔
سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ 2018 میں الیکشن لڑا تو اتحادی حکومت بنائی لیکن اس کے بعد ان کی حکومت کی بری گورننس، تکبر تھا اور نااہل مشیر جنہوں نے خان صاحب کا کان پکڑ لیا تھا انہوں نے عمران خان کو اس المیے سے دوچار کیا ہے کہ وہ پاکستانی تاریخ کے پہلے وزیراعظم بن گئے ہیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اب بھی سبق نہیں سیکھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بعد باقی لوگ بھی دباؤ میں آجائیں گے لیکن کے پی میں ان کی حکومت ہے انہوں نے وہاں سے استعفے نہیں دینے، پنجاب میں ان کی پارٹی کے بہت سے ایم پی ایز ہے وہاں سے بھی وہ شاید استعفے نہ دیں۔
اسد قیصر کے اسپیکر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے متعلق بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں جو لوگ سیاسی معاملات کو بہت قریب سے دیکھتے ہیں تو بعض اوقات وہ کھل کر نہیں بول سکتے کیونکہ ان کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ اسد قیصر نے اپوزیشن سے غیر اعلامیہ وعدہ کیا تھا کہ میں 8 بجے ووٹنگ کرا دوں گا جس کا اعتراف سعد رفیق نے قومی اسمبلی اجلاس میں بھی کیا تھا لیکن عمران خان کو پتہ چلا کہ اسد قیصر نے یہ بات کی ہے تو انہوں نے دو وفاقی وزراء کو اسد قیصر کے پاس بھیجا، وزراء نے کہا کہ ہم جو کچھ بھی ہیں وہ عمران خان کی وجہ سے ہیں، جس پر اسد قیصر نے انہیں بتایا کہ میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی ہوں اور اس دوران ان کی وزراء سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔
دوسری جانب سیکرٹری قومی اسمبلی نے اسد قیصر کو سمجھایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق آپ کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہر صورت کرانی ہے، جس کے بعد انہوں نے مستعفی ہونے پر مشاورت شروع کی اور پھر 12 بجے سے کچھ دیر پہلے استعفیٰ دیدیا۔
سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں تمام جماعتیں اپنے اپنے نعرے لگاتی نظر آئیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا، انہیں کوئی اجتماعی نعرہ لگانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک اتحادی حکومت ہے جس میں بلوچستان کے 10 ووٹ انتہائی اہم ہیں، شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کے بعد بلوچستان کے مسائل پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف حکومت کو سب سے بڑا مسئلہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کا درپیش ہو گا جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کیا تھا۔