12 اپریل ، 2022
اِس کالم کے عنوان میں مَیں نے گناہ کا لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کیوں کہ انسان نادانی میں حماقت اور غلطی کا مرتکب تو ہو جاتا ہے لیکن گناہ جانتے بوجھتے ہوئے کرتا ہے۔ گناہ معاف کرنے کا اختیار تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے مگر کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں، جنہیں تاریخ کبھی نہیں معاف کرتی۔
انسان بالخصوص کسی بھی حکمران کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اُس کے اقدامات تاریخ میں کیسے یاد رکھے جائیں گے۔ کیونکہ جب وہ اقدامات کیے جا رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت حکمران کے اِرد گرد خوشامدی بھی موجود ہوتے ہیں اور اُسے گمراہ کرنے والے بھی۔
ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں عوام کا ایک قابلِ قدر حصہ بھی لیڈروں کے خوف ناک اقدامات پر تالیاں بجا کر نعرے لگاتا رہا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے، حکومت کے دوران اور بالخصوص اِن آخری دنوں میں، ہر موقع پر عمران خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اُن سے کچھ ایسے گناہ سرزد ہو گئے کہ تاریخ اُن کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
عمران خان کا پہلا گناہ اقتدار کے حصول کیلئے پاکستان میں جمہوریت اور سول سپرمیسی کو نقصان پہنچانا ہے۔ پرویز مشرف کا دورِ آمریت ختم ہونے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں یہ بار دفعہ ہوا کہ منتخب جمہوری حکومت اور اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور ایک پُرامن انتقالِ اقتدار ہوا۔
یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا تھا کہ کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال کا دورانیہ پورا کیا، باوجود اِس کے کہ اُسکا وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا لیکن دوسری طرف عمران خان کی یہ کوشش رہی کہ 2013 میں جمہوری عمل سے بننے والی حکومت کسی نہ کسی طرح وقت سے پہلے ہی چلی جائے۔
نواز شریف کے دور میں عمران خان کا دھرنا دینا، کنٹینر پر کھڑے ہوکر امپائر کی باتیں کرنا، یہ سب چیزیں معاملات کو عدم استحکام کی طرف لے کر گئیں اور آہستہ آہستہ نظام کو کمزور کرتی گئیں اور آخر میں جو کسر رہ گئی تھی وہ 2018کے عام انتخابات سے پہلے بدترین پری پول ریگنگ اور Electables کے ردوبدل سے پوری ہو گئی اور عمران خان سلیکٹڈ وزیراعظم بن گئے۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ اُنہوں نے جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا سو پہنچایا، ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے عوام کے ذہنوں میں یہ مفروضہ بھی بیٹھا دیا کہ اُن کے علاوہ باقی سیاستدان یا تو کرپٹ ہیں یا نااہل۔ اُن کے دورِ حکومت میں احتساب کے نام پر جو بدترین مہم چلائی گئی، اسی میں ایک بھی کنووِکشن نا ہو سکی اور احسن اقبال جیسے ایمان دار اور قابل شخص کو بھی مہینوں نیب کے ذریعے جیل میں رکھا۔ اِیسی انتقامی کارروائیوں نے بھی جمہوریت کو سخت نقصان پہنچایا۔
عمران خان، اُن کے ساتھیوں اور سوشل میڈیا ٹیم نے جو پاکستان میں جھوٹ اور فیک نیوز کی بنیاد رکھی اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے دوسروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، پھر یوٹرن کی افادیت سمجھائی گئی، بعد میں اپنی ناقص کارکردگی پر ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ میں ہم نے ورلڈکپ جیت لیا ہے اور معیشت کو بھی سنبھال لیا گیا ہے۔
ناقص کارکردگی کا سارا ملبہ پرانی حکومتوں پر ڈال کر عوام کو بار بار گمراہ کیا گیا جبکہ اپنی کابینہ میں موجود کچھ لوگوں کیخلاف کرپشن پر کوئی سخت ایکشن نہ لیا گیا اور اُنہیں صرف ایک وزارت سے ہٹا کر دوسری وزارت پر لگا دیا گیا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ احتساب کا استعمال بھی صرف ایسے لوگوں کیخلاف کیا گیا جو عمران خان کیلئے ناپسندیدہ تھے۔
پھر اسی جھوٹ اور فیک نیوز کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے پاکستان میں پولرائزیشن، فاشزم اور نفرت کی سیاست کو فروغ دیا جس کی وجہ سے سیاست میں تہذیب ختم ہوئی اور گالم گلوچ کاچلن عام ہوا۔ یہ وقت ہی ثابت کرے گا کہ یہ عدم برداشت ملک کے لیے کتنی خطرناک ثابت ہو گی۔
اِس عدم برداشت کی واضح مثال دیر میں پیش آنے والا واقعہ ہے جہاں گزشتہ روز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے امام مسجد کی داڑھی نوچی اور مسجد کی حدود میں سیاسی نعرہ بازی کی۔ آج ملک جن حالات سے دوچار ہے اُس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ عمران خان صرف وزیراعظم بننا چاہتے تھے، اُن کی اِس منصب کیلئے نہ کوئی تیاری تھی اور نہ ہی انہیں گورننس کا کوئی تجربہ تھا۔
بہتر یہ ہوتا کہ وہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بن کر گورننس کے حوالے سے کچھ سیکھ ہی لیتے۔ پنجاب میں اُنہوں نے عثمان بزدار اور کے پی میں محمود خان جیسے مہروں کو وزیراعلیٰ بنائے رکھا، جن کے حوالے سے شدید عوامی اور ادارتی تحفظات موجود ہونے کے باجود انہیں تبدیل نہ کیا گیا۔
اپنی حکومت کے آخری دِنوں میں عمران خان یہ جان چکے تھے کہ اُنہیں دوبارہ حکومت میں آنے کا موقع نہیں ملے گا اِس لیے اُنہوں نے اپوزیشن اور میڈیا دونوں کے خلاف پلان بنا لیا تھا کہ اِن کو خوب دبائیں گے تاکہ وہ عوام کیلئے خود کو واحد آپشن ثابت کر سکیں۔
اس مقصد کے لیے اُنہوں میڈیا کے خلاف PECA قانون میں ترامیم کرکے ایک ایسا کالا قانون بنایا جس کے تحت وہ اپنے مخالف صحافیوں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے تو اپنے محسن، محسن بیگ کو بھی نہیں بخشا۔ ویسے تو انہوں نے اپنے کسی بھی محسن کو نہیں بخشا۔ اپوزیشن کو دوبارہ جیلوں میں بند اور کمزور کرنے کی منصوبہ بندی تیار تھی۔
اُنہوں نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین، جس پر ایک بیرونی کمپنی نے آڈٹ میں اعتراضات بھی اٹھائے تھے، کا استعمال کرکے الیکشن میں برتری حاصل کرنے کا پلان بنایا تھا۔ اِسی لیے اپوزیشن کو بھی عدم اعتماد لانا پڑی۔ البتہ یہ اپوزیشن کی خوش قسمتی تھی کہ عمران خان کی اپنی ضد کی وجہ سے اُن کا اداروں کیساتھ تصادم ہوا اور ادارے نیوٹرل ہو گئے۔
چیزیں جس طرف جا رہی تھیں، اُن کے پیش نظرمیں نے اپنے ذہن میں اس کالم کا خاکہ چند ماہ پہلے ہی بنا لیا تھا لیکن عدم اعتماد کے دوران آئین شکنی اور اِس کیساتھ ساتھ باقی جو کچھ ہوا اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عمران خان نے آخری وقت تک جمہوریت اور نظام کو خطرے میں ڈالے رکھا اور اقتدار نہ چھوڑنے پر بضد رہے۔
انہوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے اپنے دیرینہ ساتھی کی قربانی دے دی۔ آج اپنی بنائی گئی پولرائزیشن، فاشزم اور جھوٹ کے ذریعے اُن کو عوام کے متمول طبقے کے ایک مخصوص حصے کی حمایت شاید حاصل ہو لیکن غریب عوام جو خان صاحب کے دور میں پس کے رہ گئے ہیں، اُن کے ساتھ نہیں۔
اب بھی عمران خان اقتدار اور انتقام کے لیے ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں، جس سے ادارے متنازعہ ہو رہے ہیں اور ریاست کمزور ۔
اس ساری صورتحال میں ہماری عدالتیں اور ادارے ہیرو بن کر نکلے ہیں اور خان صاحب وِلن۔ جب ان کی بنائی ہوئی پولرائزیشن کی گھٹا چھٹ جائے گی اور اُن کے بولے ہوئی جھوٹ اور فیک نیوز پر سچ کو برتری ملے گی تو تاریخ خان صاحب کے نا قابلِ معافی گناہوں کی گواہی دے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔