بلاگ
Time 15 اپریل ، 2022

مسلمان اور پاکستانی بے وقعت کیوں؟

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان ذلیل و رسوا کیوں ہو رہے ہیں؟ چلیے مسلمانوں کو چھوڑیے، ہم پاکستانیوں کی دنیا میں کوئی وقعت کیوں نہیں؟ زراعت ہی کو لے لیجیے۔ ہم جس زمین سے بیس من فی ایکڑ پیداوار لے رہے ہیں، دوسری قومیں ستر من لے رہی ہیں۔ اس ذلت کی وجہ ہے علم سے محرومی۔

انسان کی ظاہری شکل خوبصورت ہو تو لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان کے دماغ کی اور اس کے علم کی بھی ایک شکل و صورت ہوتی ہے۔ انسان جتنی زیادہ عقلمندی کی بات کرےگا، اتنا ہی لوگ اس کی بات کو اہمیت دیں گے۔ آپ کو اگراس بات پریقین نہیں تو آپ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کی شکلیں دیکھیں اور انہیں ملنے والی عزت دیکھیں۔

بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں‘ جن کے بے انتہا حسین ہونے کے باوجود لوگ ان کے خاموش رہنے کی دعا کرتے ہیں۔ دماغ کو خدا نے ایسے بنایا ہے کہ جیسے ہی وہ کوئی بے عقلی کی بات سنتا ہے تو اسے غصہ آجاتا ہے۔

یہی علم تھا‘ جس کے مقابلے میں شکست کے بعد خدا نے فرشتوں کو آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اس علم کے علاوہ انسان کی باقی عادات زمین پر پائے جانے والے دوسرے جانورو ں جیسی ہی تھیں۔ بالکل جانوروں ہی کی طرح وہ افزائشِ نسل اور رفع حاجت کرتا ہے۔ سوائے اس علم کے جوخدا نے انسان کو دیا‘ جانوروں پر ہمیں کوئی برتری حاصل نہیں۔

علم کی وجہ سے انسان کو یہ مرتبہ ملالیکن اسی کی وجہ سے انسان پر شریعت بھی اتری۔ اسے بہت سی چیزوں سے روک دیا گیا۔ اسے لباس پہننے کا حکم ملا‘ جو اس کے علاوہ اور کسی کو نہیں ملا۔ یہ اور بات کہ انسان کے دماغ کے اندر موجود خواہشات کا مجموعہ جسے نفس کہاجاتا ہے‘ وہ اپنا اور دوسروں کا لباس اتار پھینکنا چاہتا ہے۔ وہ اس شریعت کا اتنا شدید دشمن ہے‘ جتنا کہ ساری زندگی ایک جنگل میں زندگی گزارنے والا گھوڑاخود پر کاٹھی ڈالنے والے کا۔

آدم علیہ السلام میں خدا نے ایک صلاحیت رکھی تھی۔ ہر چیز کا جائزہ لے کر اس کی مثبت او رمنفی خصوصیات دیکھنے کے بعد اسے ایک نام دینے کی صلاحیت۔ اس علم کی مدد سے انہوں نے ساری اشیا کے نام یاد کر لیے تھے۔ انسان کی ساری ترقی نام یاد کرنے پر منحصر ہے۔ وہ جب بھی کسی چیز میں کوئی فائدہ یا نقصان دیکھتا ہے فوراً اپنے قبیلے کو اس سے آگاہ کرتاہے اور اسے ایک نام دیتاہے۔ 

یہی وجہ اور یہی رجحان ہے‘ جس کی وجہ سے لوگ کتابیں لکھتے ہیں۔اسی رجحان کی وجہ سے خفیہ ویڈیوز بنتی ہیں۔ پرنٹنگ پریس سے لے کر انٹرنیٹ تک کی ایجادات دوسروں کو بتانے کی اسی خواہش کا نتیجہ ہیں۔یہ خواہش اتنی زیادہ ہے کہ آج آپ ہر بندے کو فیس بک اور واٹس ایپ پر روزانہ کی بنیاد پر وڈیوز شیئر کرتے دیکھ سکتے ہیں۔

دوسری طرف دنیا کے مختلف حصوں میں‘ مختلف صلاحیتوں اور رجحانات کے لوگ پیدا ہورہے تھے۔ کوئی ساری زندگی مٹی پر تحقیق کرتا مر گیا تو کوئی اپنی ٹوٹی پھوٹی دوربین لے کر ساری زندگی ستاروں کو دیکھتا رہا۔ کوئی اس بات پہ حیران تھا کہ مٹی کے نیچے دبا بیج پھٹ کر کیسے برگ و بار لے آتا ہے۔

انسان جس طرح دنیا میں موجود چیزوں کو سمجھتا چلا گیا‘ اسی طرح وہ ترقی یافتہ ہوتا چلا گیا۔ اس نے لہرو ں کی صورت میں آواز‘ تصویر اوردوسرے ڈیٹا کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنا شروع کیا۔ جو بیجوں کا علم حاصل کرتا رہا‘ اس نے زیادہ اچھی فصلیں اگانا شروع کر دیں۔ اسی طرح سے مکینیکل انجینئرز تھے‘ انہوں نے توانائی کو ایک سے دوسری شکل میں منتقل کرنا سیکھا۔ اسی طرح ارتھ سائنسز والے زمین کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں‘ وہ دوسرے نہیں جانتے۔ نیوروفزیشن اور نیورو سرجن جو کچھ دماغ کے بارے میں جانتے ہیں‘ وہ دوسرے نہیں جانتے۔ اسی طرح ارتقا کے ماہرین ہیں۔ فاسلز کو سمجھنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں۔ جسم کے اندر کی سائنسز‘ اناٹومی کے ماہرین۔ زندگی کے ماہر‘ ماہرینِ حیاتیات۔ ان سب علوم کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کی وجہ سے مغرب آج ہم سے بہت آگے ہے‘ لیکن ایک وقت تھا‘ جب مغرب جہالت میں ڈوبا ہوا تھا اور مسلمان ان سے کہیں بہتر تھے۔ فرق شاید یہ ہے کہ ان میں شاید مایوسی پھیلانے والے کم اور جدوجہد کا عزم رکھنے والے زیادہ تھے۔

خیر یہ مختلف علوم ہیں‘ جنہیں سمجھ کر دنیا کو سمجھا جا سکتاہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک علم کا ماہر دوسرے علوم کو نہیںسمجھتا۔ اناٹومی کے ماہر کو ورکشاپ کا ایک لڑکا جتنا چاہے بے وقوف بنا سکتاہے۔ کاسمالوجسٹ اور طبیعات دان کوجانور بیچنے والا آسانی سے بے وقوف بنا سکتاہے۔جیسے ہی دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر اپنے شعبے سے پائوں باہر نکال کر کسی اور شعبے میں پہلا قدم رکھتاہے تو وہ دوسرے علم کے ماہر کے سامنے ایک دودھ پیتے بچّے کی طرح ہوتا ہے۔

آپ اس کا مطلب سمجھ رہے ہیں؟ اس بات کا مطلب بہت خوفناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی پوری تصویر دیکھنے کے قابل نہیں۔ پزل کا ایک ایک ٹکڑا سب کے پاس موجود ہے اور ہر کوئی اس ٹکڑے پر خوش ہے‘ جو اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ حضرت علی ہجویریؒ نے ارشادفرمایا تھا کہ ’’ہر علم میں سے اتنا تو حاصل کرو‘ جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے‘‘۔

ان علوم کو سمجھے بغیر خدا کی شناخت ہو سکتی ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ ہم پر فرض ہے کہ جس طرح ہم اپنی ظاہری شکل و صورت کو روزانہ سنوارتے ہیں‘ اسی طرح کچھ وقت اپنی علمی شکل و صورت کو بھی سنوارنے کی کوشش کریں‘ ورنہ خدا ہمیں ملے گا اور نہ ہی دنیا ہاتھ آئے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔