تخت لاہور کیلئے جنگ

دونوں خاندانوں کا اس اہم جنگ میں سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے ان میں سے کوئی بھی جیتنے یا ہارے ان کی آپس میں سیاسی رقابت ختم نہیں ہوگی۔ فوٹو: فائل
دونوں خاندانوں کا اس اہم جنگ میں سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے ان میں سے کوئی بھی جیتنے یا ہارے ان کی آپس میں سیاسی رقابت ختم نہیں ہوگی۔ فوٹو: فائل

وزیراعلیٰ پنجاب کی اہم پوزیشن کے لیے انتخاب ہفتہ 16 اپریل کو ہونے والا ہے، تخت لاہور کے لیے یہ مقابلہ کوئی آسان نہیں ہوگا، دراصل وزارت اعلیٰ کے لیےمقابلہ پاکستان کے دو طاقتور سیاسی خاندانوں شریف اور چوہدری برادران کے درمیان ہوگا۔

اس مقابلے میں دونوں خاندانوں کے درمیان حساب بھی برابر ہوگا لہٰذا اس دوران غیر معمولی واقعات کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ عین انتخاب کے دن کچھ بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ پنجاب میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہوتا آیا ہے۔

 دونوں خاندانوں کا اس اہم جنگ میں سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے ان میں سے کوئی بھی جیتنے یا ہارے ان کی آپس میں سیاسی رقابت ختم نہیں ہوگی۔ بلکہ آئندہ عام انتخابات تک عداوت مزید گہری ہوجائے گی۔

چوہدری پرویز الٰہی اس وقت پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں اور وہ 2002 سے 2007 تک سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب بھی رہے۔ درحقیقت وہ عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کے عرصہ میں ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ رہےجب حکومت تحریک انصاف کی تھی۔

دوسری طرف حمزہ شہباز موجودہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، وزارت اعلیٰ کے لیے حمزہ پر اعتماد ہیں کہ انہیں تحریک انصاف کے منحرفین جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان گروپوں کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی سبکدوشی کے بعد حمز ہ کو پرویز الٰہی پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے کیونکہ حمزہ کے والد شہباز شریف اب ملک کے وزیراعظم ہیں۔

اس انتخاب کی اپنی سیاسی اہمیت ہے کیونکہ پرویز الٰہی کی ممکنہ شکست عمران خان کے لیے دوہرے مسائل اور مشکلات کھڑے کرسکتی ہے۔ چوہدری برادران پنجاب کی سیاست میں شریف برادران کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔

پرویز الٰہی وزارت اعلی کا انتخاب جیتنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے وہ 1997 میں اپنی سیاسی شکست کا انتقام لینا چاہتےہیں جب نواز شریف اپنے وعدے سے مکر گئے تھے اور وعدے کے باوجود وزارت اعلیٰ کے لیے شہباز شریف کو پرویز الٰہی پر ترجیح دی تھی۔

گزشتہ 8 مارچ کے بعد وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ سابق صدر آصف علی زرداری دونوں خاندانوں کو ایک صفحہ پر لانے میں کامیاب ہوئے۔ پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے پر اتفاق بھی ہوا لیکن دوسری جانب پرویز الٰہی اور عمران خان کے نرم گرم تعلقات چلتے رہے۔

2002 میں پرویز مشرف نے اقتدار کے لیے تحریک انصاف پر مسلم لیگ ق کو ترجیح دی گو کہ ق لیگ حکمراں جماعت کی اتحادی بنی لیکن تعلقات میں گرم جوشی پھر بھی نہیں آئی۔

تاہم موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں جب نواز شریف اور زرداری، پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ پر متفق ہوئے توعمران خان نے اپنا پتہ کھیلا، عثمان بزدار سے استعفیٰ لیکر وزارت اعلیٰ کے لئے پرویز الٰہی کو نامزد کر دیا، اب آئندہ 16 اپریل کو وزارت اعلیٰ پنجاب کے لیےانتخاب پنجاب میں سیاست کا رخ متعین کردے گا۔

مزید خبریں :