16 اپریل ، 2022
بعض احمق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس پر حیران ہیں لیکن میں اس لاڈلے یعنی عمران خان سے متعلق افواجِ پاکستان اور اس کی قیادت کے صبر پر حیران ہوں۔
لاڈلے کی خاطر افواج پاکستان نے جتنے طعنے سنے، جتنا اپنے وقار کو رِسک میں ڈالا، جتنا اس کو حکمران بنانے اور پھر اس کی حکومت کو چلانے کی قیمت ادا کی اور اس کے جواب میں لاڈلے نے جس طرح اس قومی ادارے سے سیاسی جماعتوں کو لڑانے کی سازشیں کیں، جس طرح معاشی اور معاشرتی لحاظ سےملک تباہ کرکے فوج کو امتحان میں ڈالا، جس طرح خود فوج کو بلیک میل کرتے رہے، جس طرح آرمی چیف کی ایکسٹینشن کو ڈرامہ بنایا، جس طرح ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری سے فوج کو امتحان میں ڈالا، اقتدار بچانے کی خاطر جس طرح امریکہ سے متعلق جھوٹ پر مبنی بیانیہ اپنایا، سوشل میڈیا کے ذریعے فوج کے خلاف جو غلیظ مہم چلوائی اور سب سے بڑھ کر فوج کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کی سازشیں کیں، یہ کوئی اور کرتا تو نہ جانے کب کا اسے نمونہ عبرت بنا دیا گیاہوتا لیکن ان کے معاملے میں عسکری قیادت مسلسل صبر سے کام لیتی رہی۔
وہ جھوٹ پر جھوٹ بول کر قومی سلامتی سے کھیلتا رہا اور فوجی قیادت سہتی رہی ۔ فوجی قیادت کا ”قصور“ فقط یہ تھا کہ وہ ملک اور اپنے ادارے کی خاطر مزید سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔
انہوں نے سیاست کو سیاستدانوں کے سپرد کرنے اور اپنے آپ کو آئین اور قانون کی بالادستی سے جوڑنے کا فیصلہ کیا جبکہ لاڈلے کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کی بجائے اپنی حدود سے نکل کر اس کا اقتدار بچانے کے لیے ماضی کی طرح اپوزیشن کے ہاتھ مروڑے، عدلیہ کو دبائے، میڈیا کو سیدھا کرے اور جو غیرآئینی اور غیرقانونی اقدامات وہ کررہے ہیں، ان میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ لیکن جب فوجی قیادت نے آئین، قانون اور جمہوریت سے جڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا تو عمران خان نہ صرف ان کے بلکہ ملکی سلامتی کے بھی پیچھے پڑگئے۔
وہ بھی کسی ٹھوس بنیاد پر نہیں بلکہ جھوٹ کی بنیاد پر۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور آج پھر یاد دہانی کراتا ہوں کہ دو درجن سے زائد صحافیوں کی موجودگی میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کئی ماہ قبل فرماچکے تھے کہ امریکیوں نے اڈے مانگے ہیں اور نہ ہم نے انکار کیا۔ عمران خان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر معید یوسف اور شاہ محمود قریشی کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ امریکہ نے اڈے مانگے اور نہ کسی نے ان کو ایبسلوٹلی ناٹ کہا۔
ٹرمپ کے دنوں میں امریکی حکومت کا ارادہ کچھ اور تھا لیکن بائیڈن انتظامیہ پہلے دن سے یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ نہ افغانستان میں اڈے رکھنے ہیں اور نہ پاکستان میں۔ وہ مشرق وسطیٰ میں موجود20 سے زائد بیسز کو کافی سمجھتی ہے۔
عمران حکومت سے انہوں نے ائراسپیس مانگی جو خوشی سے انہوں نے دے دی۔ اب جب اڈے ان کی ضرورت نہیں تھے تو وہ مانگتے کیوں اور جب انہوں نے مانگے نہیں تو پھر ایبسلوٹلی ناٹ کون کس سے کہتا ؟ اب کئی ماہ سے عمران خان سمیت ان کے وزرا اور ترجمان (جن میں کئی امریکہ اور برطانیہ کی شہریت بھی رکھتے تھے) یہ جھوٹ بول کر پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے رہے لیکن فوج خاموش رہی۔ پھر انہوں نے 7مارچ کو امریکہ میں پاکستانی سفیر کے خفیہ کیبل کا ڈرامہ شروع کیا۔
فوج تو کیا ہم جیسے طالب علم بھی جانتے تھے اور بار بار لکھا بھی کہ اس طرح کے کیبل معمول میں آتے رہتے ہیں اور یہ کہ اس کیبل کا اپوزیشن کے عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں لیکن لاڈلے اور ان کے ساتھیوں نے جلسوں میں کاغذ لہرانے شروع کر دیے ۔ سفارتکار بخوبی جانتے ہیں کہ اس کام کے ذریعے لاڈلےنے ہر ملک میں پاکستانی سفارتکاروں کا کام کتنا مشکل بنا دیا لیکن وہ تسلسل کے ساتھ یہ جھوٹ بولتے رہے۔ کیبل 8مارچ کو آئی تھی اور دو ہفتوں تک انہوں نے نہ اس کا ذکر کیا اور نہ امریکیوں سے کوئی احتجاج۔ پھر کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایاجس میں اصل حکومتی ممبران کی بجائے حماد اظہر اور اسد عمر جیسے غیرضروری ممبر بھی بلائے۔
وہاں حکومت جوائنٹ چیف اور سروسز چیفس کو عدم اعتماد یا سیاسی مداخلت کے جھوٹے بیانیے پرقائل نہ کرسکی کیونکہ آئی ایس آئی اس سارے معاملے کی تحقیق کرچکی تھی۔ چنانچہ خود حکومت نے جو پریس ریلیز جاری کی اس میں عدم اعتماد یا سازش کا ذکر نہیں تھا لیکن لاڈلے اور ان کے ترجمانوں نے اس کی یہ غلط تشریح کرنی شروع کردی کہ سروسز چیفس نے ان کے موقف کی تائید کی۔
پھر بھی فوج نے صبر سے کام لیا اور خاموش رہی۔پہلے تو عمران خان اپوزیشن کو چیلنج کرتے رہے کہ وہ عدم اعتماد لے آئے لیکن جب اپوزیشن عدم اعتماد لے آئی اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ اب ان کا جانا ٹھہر گیا ہے توا سپیکر سے آئین شکنی کروا دی۔ پھر خود آئین شکنی کرکے صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا۔ اس سے بھی کام نہ چلا تو عسکری قیادت سے درخواست کی کہ وہ ان کی تین تجاویز اپوزیشن تک پہنچا دیں۔انہوں نے ان کی خاطر یہ کام کیا لیکن اپوزیشن نہ مانی۔ یہاں ایک بار پھر لاڈلے نے جھوٹ کا سہارا لے کر تجاویز کا معاملہ فوج کے کھاتے میں ڈال دیا۔ وہ پھر بھی صبر سے کام لیتی رہی۔
پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کی حرکت کی وجہ سے گھبرا کر انہوں نے اسپیکر کو قربان کرکے ووٹنگ پر آمادگی ظاہر کی جس کے نتیجے میں انہیں وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہونا پڑا لیکن بجائے اس کے کہ وہ سیاسی راستہ اختیار کرتے الٹا انہوں نے اپنے میڈیا ٹرولزکے ذریعے فوجی قیادت کے خلاف ایسی غلیظ مہم شروع کردی کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں مطالبہ کرتی رہیں کہ فوج عمران خان کے جھوٹے دعوؤں سے متعلق حقائق قوم کو بتائے لیکن پھر بھی فوجی قیادت صبر سے کام لیتی رہی۔ بدھ کے روز پشاور جلسے سے قبل ان کے پانچ وزیر اور مشیر ان کی منتیں کرتے رہے کہ وہ جلسے میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا مہم کی مذمت کریں لیکن ایسا کرنے کی بجائے انہوں نے الٹا سوشل میڈیا کی طاقت کی بات کی۔
چنانچہ فوجی قیادت کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور جمعرات کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے تمام حقائق سامنے رکھ دئیے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکہ کو اڈے دینے سے انکار، امریکہ کی طرف سے عدم اعتماد کی سازش، آرمی چیف کی طرف سے ایکسٹینشن کی خواہش، فوج کی طرف سے تین نکاتی فارمولہ پیش کرنے یا فوج کے اعلیٰ حکام کا 9اپریل کو وزیراعظم کے پاس جانے کے سب عمرانی دعوے ایبسلوٹ جھوٹ ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔