Time 18 اپریل ، 2022
بلاگ

سری لنکا سے کیا سبق سیکھا جا سکتا ہے؟

پیپلزپارٹی کے جیالے،مسلم لیگ(نـ)کے متوالے ،جے یوآئی(ف)کے پرجوش کارکن ،ایم کیو ایم کے وابستگان اور اپوزیشن سے حکومتی بنچوں پر منتقل ہونے والے دیگر سیاسی جماعتوں کے چاہنے والے وفاق کے بعد پنجاب میں تبدیلی سرکار کو رُخصت کردینے کا جشن منا چکے ہوں اور عمران خان کے پیروکار اگر ان کی اقتدار سے محرومی پر سینہ کوبی سے فارغ ہوچکے ہوں تو کئی بھیانک خبریں توجہ کی طلبگار ہیں ۔

ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں تو حالات خراب ہیں ہی ،مگر ایک اور پڑوسی ملک کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور لامحالہ ہم بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔سری لنکا جس کے ذمہ 51بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضے واجب الادا ہیں ،اس نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد صورتحال تشویشناک صورتحال اختیار کرگئی ہے۔

بجلی دستیاب نہیں ،پیٹرول نہیں مل رہا ،غذائی اجناس ،ادویات اور بنیادی ضروریات کی قلت کا سامنا ہے۔سری لنکن کرنسی نہایت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوئی ۔ایک سال کے دوران سری لنکن روپے کی قدر 100فیصد کم ہوئی۔غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب ڈالر سے کم ہوگئے۔فکر انگیز بات یہ ہے کہ دو کروڑ آبادی کا ملک جہاں سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں ،اگر اسے دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو 22کروڑ انسانوں کا ملک پاکستان جہاں مسائل کہیں زیادہ گھمبیر ہیں ،وہاں حالات کیا رُخ اختیار کرسکتے ہیں؟کیا حریت فکر کے نعرے لگانے اور یہ بتانے والوں کو کہ Beggars Can't Be Choosers ،یکساں طور پر اس سوال پر غور نہیں کرنا چاہئے کہ سری لنکا کو یہ دن کیوں دیکھنا پڑے؟جو غلطیاں ان سے سرزد ہوئیں کہیں ہم بھی وہی دہراتے ہوئے تباہی و بربادی کے اسی راستے پر تو گامزن نہیں؟

سری لنکا کی معیشت کا 12سے 13فیصد انحصار سیاحت کے شعبہ پر ہے۔2018ء میں لگ بھگ 2.3ملین غیر ملکی سیاحوں نے سری لنکا کا رُخ کیا۔21اپریل2019ء کو ایسٹر کے موقع پر ایک اسلامی تنظیم نے خودکش دھماکے کرکے دہشت پھیلادی۔ان بم دھماکوں میں 243افراد ہلاک ہوئے مگر ان سے پہلے سیاحت کی موت واقع ہوئی۔رہی سہی کسر کورونا کی وبا نے پوری کردی۔مگر محض سیاحت کے شعبہ میں ہونے والے نقصان کے باعث معیشت دیوالیہ پن کا شکار نہیں ہوئی۔

غیر دانشمندانہ فیصلوں، غلط سرمایہ کاری ،غیر ضروری قرضوں اور ارتکازِ اقتدار نے بھی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں اہم کردار اداکیا۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چین سے سخت شرائط پر قرضے لے کر ان منصوبوں پر پیسہ لگایا گیا ،جن سے آمدن کے امکانات کم تھے ۔مثال کے طور پر چین سے قرض لیکر Hamabantota انٹرنیشنل پورٹ بنائی گئی لیکن جب قرضہ واپس نہ کیا جا سکا تو اسے ایک چینی کمپنی کے سپرد کرنا پڑا۔سری لنکا کے صدر Gotabaya Rajapaksa نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ ویلیوایڈڈ ٹیکس کم کردیں گے اور ملک میں آرگینک فوڈ کو فروغ دیں گے۔برسراقتدار آتے ہی سری لنکن صدر نے VATمیں کمی کردی اور آرگینک فوڈ کی طرف قدم بڑھانے کے لئے فرٹیلائزر پر پابندی لگادی۔

یہ دونوں فیصلے توشایددرست تھے مگر ان کا طریقہ کار غلط تھا۔مثال کے طور پر آرگینک فوڈ کی طرف بتدریج بڑھنے کی بجائے ایک دم فرٹیلائزر کی درآمد پر پابندی لگادینے سے فصلوں کی پیداوار گھٹ گئی اور بنیادی ضروریات پر مبنی غذائی اجناس بھی درآمد کرنا پڑ گئیں ۔یوں ایک طرف آمدن کے مقابلے میں اخراجات زیادہ ہونے سے بجٹ خسارہ بڑھتا گیا تو دوسری طرف برآمدات کے مقابلے میں درآمدات بڑھ جانے سے تجارتی خسارے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔امپورٹ بل میں بے تحاشا اضافہ غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر ہڑپ کرتا چلا گیا ،نوٹ چھاپ کر کام چلانے کے سبب کرنسی کی قدر گھٹتی چلی گئی ،حکومت غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے Sovereign Bondجاری کرتی چلی گئی اور جب سب راستے بند ہوگئے تو دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔

سری لنکا کی معیشت تباہ ہونے کی کچھ سیاسی وجوہات بھی ہیں۔کئی عشروں سے اقتدار ’Paksa‘خاندان کے گھر کی لونڈی ہے۔مہندا راجہ پاکسے جو 2004ء میں وزیراعظم اور2005میں سری لنکا کے صدر بنے تھے ،وہ اور ان کے تین بھائی برسہا برس سے اقتدار پر قابض ہیں۔مہندا راجہ پاکسے کے ایک بھائی Gotabaya Rajapaksaجو فوج میں تھے ،ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بھی سیاست میں آگئے اور اب وہ صدر مملکت ہیں جبکہ خود مہندا راجہ پاکسے ٹوپی بدل کر وزیراعظم کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں۔ان کے تیسرے بھائی Chamal Rajapaksa جو 2010-2015ء تک سری لنکن پارلیمنٹ کے اسپیکر رہے ہیں ،وہ ان کی کابینہ میں ایریگیشن کے وزیر ہیں ۔

شاید ان کا خیال ہے کہ صرف ’Paksa‘خاندان کی مائیں ہی حکمران پیدا کرتی ہیں، اس لئے مہندا راجہ پاکسے نے گزشتہ برس اپنے چوتھے بھائی Basil Rajapaksaکو نہ صرف وفاقی وزیر بنادیا بلکہ منسٹری آف فنانس کا قلمدان بھی ان کے سپرد کردیا۔ان کے بھائی Basil Rajapaksa دہری شہریت کے حامل ہیں اور ان کے پاس امریکن پاسپورٹ ہے ، سری لنکا کے آئین کے تحت چوں کہ دہری شہریت کا حامل شخص کابینہ کا حصہ نہیں بن سکتا اس لئے اپنے بھائی کو فنانس منسٹر بنانے کے لئے دستور میں ترمیم کی گئی۔موجودہ معاشی بحران کے بعد 26رُکنی کابینہ تو مستعفی ہوچکی ہے مگر یہ چاروں بھائی بدستور اپنے عہدوں پر موجود ہیں۔

ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقتدار شریف فیملی کی خاندانی میراث ہے یہی وجہ ہے کہ وفاق میں میاں شہباز شریف وزیراعظم اورپنجاب میں ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ کا منصب سنبھال چکے ہیں ۔ دو بھائی تو اس سے قبل بھی بیک وقت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ رہے ہیں مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ باپ اور بیٹا ان عہدوں پر براجمان ہیں۔ اس سے پہلے جب اقتدار ہاتھ آنے کا کوئی امکان نہ تھا تب بھی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں انہی باپ بیٹے کو قائد حزب اختلاف کا منصب سونپا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت میں شریف خاندان کے علاوہ کوئی شخص اس قابل نہ تھا کہ اسے وزارت عظمیٰ یا وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کیا جاسکتا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔