20 اپریل ، 2022
حکیم سعید مرحوم جو سرتاپا پاکستانی تھے، نے اپنی کتاب میں عمران خان کے بارے میں لکھا کہ ایک مخصوص لابی نے عمران خان کو اُٹھانے کا منصوبہ بنایا ، اُس کاذکر تک نہیں کرتے۔ اکبر ایس بابر کا حلف اٹھا کر یہ کہنا کہ عمران خان نے جارج بش کی کامیابی کے لیے دو رکعت نفل پڑھے تھے، کو بھی ان کی ذہنی اختراع قرار دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور سید خورشید شاہ کے ان دعوؤں کو بھی سیاسی قرار دیتے ہیں کہ ہنری کسنجر نے بے نظیر بھٹو کو عمران خان کا خیال رکھنے کا کہا تھا۔
پی ٹی آئی کے ورکروں کی طرح اس تاریخی حقیقت سے بھی انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے کس ڈھٹائی کے ساتھ پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں زیک اسمتھ کے لیے لندن جاکر فرینڈز آف اسرائیل کے بینر تلے انتخابی مہم چلائی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کی ”کامیاب“ ملاقاتوں کے بعد ملک بھر میں جشن منانے اور پھر زلفی بخاری کے ذریعے ٹرمپ کے داماد کرشنر کے ساتھ ڈائریکٹ اور خصوصی رابطوں کو بھی بھلا دیتے ہیں۔
امریکہ کی شہہ پر انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کیا اور وہ تماشہ دیکھتے رہے، اس دکھ کا بھی تذکرہ نہیں کرتے۔ انہوں نے حکومتی ایوانوں میں ذمہ دار عہدوں پر امریکہ اور برطانیہ کی وفاداری کے حلف اٹھانے والے بٹھادیے، وہ بھی بھلا دیتے ہیں۔ چونکہ لاڈلا ہے اس لیے معیشت کو آئی ایم ایف کے ذریعے گروی رکھنے اور فیٹف یا امریکہ کے حکم پر ڈکٹیٹڈ قانون سازی کرنے کے جرائم کو بھی ذہنوں سے محو کردیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان نے آخر امریکہ کا بگاڑا کیا ہے جو امریکہ ان سے اتنا ناراض ہوگیا کہ ان کی حکومت گرانے کے لیے سازش تیار کرنے لگا ؟ روس جانا اگر جرم ہے تو روس کا پہلا دورہ آصف علی زرداری نے کیا تھا اور ہلیری کلنٹن نے خفیہ کیبل کے ذریعے نہیں بلکہ براہ راست فون کرکے انہیں منع کرنے کی کوشش کی تھی۔
عمران خان سے پہلے جنرل باجوہ روس کا دورہ کرچکے تھے اور خود عمران خان کہتے ہیں کہ اب کی بار بھی وہ ان کی مشاورت سے روس گئے۔ پھر تو امریکہ کو چاہئے تھا کہ وہ جنرل باجوہ کو ہٹانے کی سازش کرتا۔ ہاں امریکہ پاکستان کی افغانستان میں طالبان سے متعلق پالیسی پر ناراض تھا اور امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ پالیسی پاکستانی فوج بناتی اور چلاتی ہے۔ اسی طرح سی پیک امریکیوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور اس کے ایم او یوپر آصف زرداری کے دور میں دستخط ہوئے تھے جبکہ میاں نواز شریف کے دور میں اس پر اتنا زور ڈالا گیا تھا کہ ملک میں صرف سی پیک سی پیک ہی ہورہا تھا۔ پھر تو امریکیوں کو زرداری اور نواز شریف کی حکومت کے خلاف سازش کرنی چاہئے تھی۔
عمران خان کوئی ایک ٹھوس قدم تو بتادیں جو انہوں نے امریکہ کے مفادات کے خلاف اٹھایا ہو؟ روس کا دورہ انہوں نے ضرور کیا لیکن ان کی حکومت یوکرائن کے معاملے میں نیوٹرل رہی اور روس کا ساتھ نہیں دیا۔ معاملہ تو الٹ ہے۔ وہ یوں کہ عمران خان نے امریکہ کی جتنی خدمت کی وہ کسی اور سویلین حکمران نے نہیں کی۔ امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستانی معیشت کی مہار اس کے ہاتھ میں رہے جوعمران خان نے آئی ایم ایف اور امریکہ سے آئے ہوئے اسٹیٹ بینک کے گورنر کی خودمختاری کے ذریعے اس کے ہاتھ میں دے دی۔
امریکہ چاہتا تھا کہ سی پیک مجوزہ منصوبے کے مطابق پایہ تکمیل تک نہ پہنچے اور عمران خان نے یہ خدمت سرانجام دی۔ ان کے وزرا نے سی پیک کے خلاف بیانات دئیے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ سی پیک کے منصوبوں کی تفصیلات شیئر کیں (آئی ایم ایف کی کنٹری ڈائریکٹرکا بیان ریکارڈ پر ہیں) اور سی پیک پرکام عملاً روک دیا۔ گزشتہ دو سال سے سی پیک کے جے سی سی کی میٹنگ نہیں ہوئی اور چین کی حکومت نے عسکری قیادت کو بار بار مختلف طریقوں سے یہ پیغام دیا کہ وہ عمران خان کی حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
چین میں اگرپاکستانی سفارتخانے سے آنے والی خفیہ کیبلز سامنے آجائیں تو پتہ چل جائے گا کہ اصل میں امریکہ نہیں بلکہ چین کی حکومت عمران خان سے نالاں تھی۔ امریکہ کا اصل ہدف پاکستان کے حوالے سے یہ ہے کہ وہ یہاں پر ایک مینجڈ افراتفری (Managed chaos) چاہتا ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت جو قوم کے افراد کو ایک زنجیر میں پروتی ہے، کو ڈس کریڈٹ کیا جائے۔ چنانچہ عمران کے ذریعے پہلا کام یہ کروایا گیا۔
پھر سوشل میڈیا (جو بنیادی طور پر امریکہ ہی کے زیرکنٹرول ٹولز ہیں) اور جلسوں کے ذریعے ہماری معاشرتی اقدارکا جنازہ نکالاگیا۔ پھر عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے فوج، عدلیہ اور میڈیا جیسے اداروں کو متنازعہ کیا گیا اور اب آخری مرحلے میں وہ پاکستان کی یکجہتی کی علامت ادارے فوج پر حملہ آور ہوئے۔
کمال کی بات یہ ہے کہ نعرہ انہیں یہ دیا گیا کہ انہیں امریکہ نے سازش کرکے اقتدار سے نکالا کیونکہ امریکی حکومت جانتی ہے کہ پاکستانی عوام ان سے نفرت کرتے ہیں اور یہ نعرہ پاکستانی عوام کے لیے کس قدر پرکشش ہے لیکن امریکہ کو کوئی نقصان پہنچانے کے بجائے وہ پاکستان میں خانہ جنگی کرانا چاہتے ہیں۔ یہی رویہ انہوں نے عدلیہ سے متعلق بھی اپنا رکھا ہے۔ اب اگر واقعی امریکہ نے ان کی حکومت کے خلاف سازش کی ہے تو پھر ٹویٹر ٹرینڈ امریکہ مردہ باد اور اس کے دست راست برطانیہ مردہ باد چلنے چاہئے تھے لیکن اس کے بجائے وہ آرمی قیادت اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف ٹرینڈز چلارہے ہیں۔ چند روز کے لیے انہوں نے لوگوں کو جذباتی تو بنا دیا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں لیکن لکھ کر رکھ لیں کہ یہ عارضی جھاگ ہے جو بہت جلد بیٹھ جائے گا۔
عمران خان کہہ رہے ہیں کہ سازش میں شریک صحافی امریکی سفارتخانے میں جاتے رہے۔ ان کا سب سے بڑا ناقد میں رہا ہوں۔ اقتدار کے ان پونے چار سال میں انہوں نے ایجنسیوں کو میرے پیچھے لگا رکھا تھا۔
گزشتہ دو سال میں اگرمیرا ایک مرتبہ بھی امریکی سفارتخانے جانے کا ثبوت وہ سامنے لے آئیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ میں اللہ رب العالمین کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر مجھے رتی بھر بھی یقین ہوتا کہ ان کی حکومت کو گرانے میں امریکہ کا کردار ہے تو تمام اختلافات کے باوجود میں ان کے حق میں سب سے پہلے آواز بلند کرتا۔
قوم ان شاء اللہ نام نہاد امریکی سازش کی حقیقت جلد جان جائے گی اور ان کا ساتھ دینے والے پھر اسی طرح پچھتائیں گے جس طرح علیم خان اور جہانگیر ترین پچھتا رہے ہیں۔کیا امریکی اتنے بے وقوف ہیں جو اپنے لیے اس قدر گراں قدر خدمات سرانجام دینے والی حکومت کو گرا کر اس شہباز شریف کو اقتدار دلوائیں گے جو چین کا چہیتاہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔