Time 22 اپریل ، 2022
پاکستان

توشہ خانہ ماضی کے حکمرانوں کیلئے مسائل کی پٹاری

اگر یہ بات سامنے آ جائے کہ سابق حکمرانوں نے کون سے تحائف اپنے پاس رکھے ہیں تو یہ سب سے بڑا اسکینڈل بن سکتا ہے: ذرائع. فوٹو: فائل
اگر یہ بات سامنے آ جائے کہ سابق حکمرانوں نے کون سے تحائف اپنے پاس رکھے ہیں تو یہ سب سے بڑا اسکینڈل بن سکتا ہے: ذرائع. فوٹو: فائل

اسلام آباد: حکومت پاکستان کا توشہ خانہ ایسی جگہ ہی نہیں رہی کہ اس کا دورہ کیا جائے کیونکہ ملک کے بیشتر صدور، وزرائے اعظم فوجی حکمرانوں اور  اہم عہدیدار (سویلین اور عسکری) ماضی میں غیر ملکی شخصیات سے ملنے والے تحائف انتہائی ارزاں نرخوں پر خرید کر اپنے گھر لے جا چکے ہیں۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ سابق وزیر اعظم عمران خان اس امڈتے ہوئے طوفان کی زد میں آئے ہیں لیکن بمشکل ہی کسی سابق وزیراعظم، صدر، فوجی حکمران اور اہم عہدیداروں میں سے کسی نے توشہ خانے میں ملنے والے تحائف جمع کرائے ہوں۔

کابینہ ڈویژن میں اس معاملے سے نمٹنے والے ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے توشہ خانے میں دکھانے کیلئے کچھ بھی موجود نہیں اور جو کچھ رہ گیا ہے اسے آپ کچرہ کہہ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے حوالے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مقابلے میں اگر یہ بات سامنے آ جائے کہ سابق حکمرانوں بشمول جنرل پرویز مشرف، آصف زرداری، نواز شریف، شوکت عزیز اور دیگر نے کون سے تحائف اپنے پاس رکھے ہیں تو یہ سب سے بڑا اسکینڈل بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سابق صدور کے ملٹری سیکریٹریوں نے بھی توشہ خانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں، توشہ خانے کے حوالے سے پالیسی بنائی ہی اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کیلئے گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2018 کے آخر تک نافذ پالیسی کے تحت تحفہ وصول کرنے والا عہدیدار تحفے کی اصل قیمت کے تجزیے کے بعد اس کی صرف 20 فیصد قیمت ادا کرکے وہ تحفہ اپنے پاس رکھ سکتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ فی الوقت توشہ خانے کی حالت یہ ہے کہ جو سویلین اور فوجی افسران توشہ خانے میں موجود تحائف کو خریدنے کیلئے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اب اس میں موجود باقی رہ جانے والی چیزوں کو خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

توشہ خانے میں وہ تحائف رکھے جاتے ہیں جو غیر ملکی سرکاری عہدیداروں اور نمایاں افراد کی جانب سے ملک کے سرکاری عہدیداروں کو دیے جاتے ہیں، ان تحفوں کو ’’سرکاری خزانے‘‘ میں جمع کیا جاتا ہے اور انہیں عموماً ریاست کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔

تاہم، سرکاری پالیسی کے مطابق، صرف سیاست اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ (سویلین اور فوجی) اور جج صاحبان ہی یہ تحفے خرید سکتے ہیں۔ معاشرے کے اس با اثر طبقے کو عموماً یہ تحفے انتہائی ارزاں نرخوں پر خریدنے کی اجازت ہے یا پھر یہ تحفے وفاقی حکومت اور مسلح افواج کے افسران میں نیلام کیے جاتے ہیں۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پالیسی یہ ہے کہ کسی کو بھی تحفہ ملے تو وہ پہلے حکومت کو آگاہ کرے اور اسے توشہ خانے میں جمع کرائے لیکن ایسے کیسز ہیں جن میں ملنے والے تحفوں کا بتایا ہی نہیں جاتا اور یہ حکومت کو بھی نہیں دیے جاتے کہ توشہ خانے میں جمع کرایا جائے۔

دسمبر 2018 میں جاری کردہ نظرثانی شدہ پالیسی کے مطابق، اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے زائد مالیت کا تحفہ تحفہ وصول کرنے والا عہدیدار 30 ہزار سے زائد جتنی رقم بنتی ہے اس کا50 فیصد حصہ ادا کرکے وہ تحفہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔

لیکن اس طرح کی سہولت نادر اور بیش قیمت انمول تحائف کیلئے نہیں ہے۔ ایسے تمام تحائف کا مناسب انداز سے اندراج کرکے کیٹلاگ بنا کر سرکاری عمارتوں میں رکھا جانا اور اس کی نمائش کرنا لازمی ہے۔

ایسے تحفوں کا اندراج متعلقہ ادارے یا دفتر کے اسٹاک رجسٹر میں کرنا لازمی ہے۔ 30 ہزار روپے مالیت تک کے تحفے وصول کنندہ مفت اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔

سرکاری عہدیدار ماسوائے صدر مملکت اور سربراہِ حکومت کو یہ اجازت نہیں کہ وہ نجی حیثیت میں اپنے لیے یا اپنے اہل خانہ کیلئے سفارت کاروں، قونصلرز اور دیگر غیر ملکی نمائندوں، ملک کے کسی سرکاری ادارے یا نجی شخص یا پھر کمپنی سے تحفے لیں۔تاہم، اگر انتہائی غیر معمولی حالات میں جب تحفے سے انکار نہ کیا جا سکتا ہو تو ایسی صورت میں تحفہ لازمی طور پر توشہ خانے میں جمع کرانا ہوگا۔

ایسے تحفے جنہیں رکھا جا سکتا ہے اور نہ انہیں سرکاری عمارت میں نمائش کیلئے پیش کیا جا سکتا ہو انہیں کابینہ ڈویژن وقتاً فوقتاً نیلامی میں فروخت کرے گی جو سال میں دو مرتبہ منعقد کی جائے گی۔ جو تحفے فروخت کیے جانا ہیں ان کی فہرست تمام سرکاری اداروں، وفاقی حکومت اور فوج کے افسران میں تقسیم کی جائے گی۔

دو مرتبہ نیلامی کے انعقاد کے باوجود اگر کوئی تحفہ فروخت نہ کیا جا سکے تو اسے عوام کو فروخت کیلئے بذریعہ نیلامی پیش کیا جائے گا۔ نادر اور بیش قیمت آئٹمز اور گاڑیاں وصول کنندہ خرید نہیں سکتا۔ نادر اشیا کو میوزیم میں یا سرکاری عمارتوں میں نمائش کیلئے رکھا جائے گا جبکہ گاڑیوں کو کابینہ ڈویژن کے سینٹرل پوُل میں شامل کیا جائے گا۔

ان تحائف کی قبولیت یا انہیں فروخت کرنے کے حوالے سے طریقہ کار کا اطلاق صدر، وزیراعظم، ان کے اہل خانہ، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیف جسٹس سپریم کورٹ، گورنرز، ارکان وفاقی کابینہ، اٹارنی جنرل پاکستان، وزرائے مملکت، صوبائی کابینہ کے ارکان، سپریم کورٹ کے ججز، ہائی کورٹس کے ججز، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر منتخب نمائندوں، تمام سرکاری ملازمین (سویلین اور ملٹری) اور ساتھ ہی سرکار کے ماتحت کارپوریشنز کے ملازمین، خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے ملازمین، ان کے اہل خانہ، زیر کفیل افراد، صوبائی حکومت کے ارکان، بیرون ملک کا سفر کرنے والے سرکاری عہدیدار اور سرکاری وفد میں شامل افراد پر ہوتا۔

نوٹ: یہ خبر 22 اپریل 2022 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے۔

مزید خبریں :